خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو انکی پچاسویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، پشتونخوامیپ
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کوئٹہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام خان شہید عبدالصمد خان کے پچاسویں برسی کی مناسبت سے تین مختلف سیشنز میں علمی سیمینار کا انعقاد ہوا۔ سیمینار میں یونیورسٹی کے اساتذہ کرام، ممتاز ادیب، مصنفین، کالم نگاروں، سینکڑوں طلباء، پارٹی اور تنظیم کے عہدیداروں اور کارکنوں، مختلف سیاسی تنظیموں کے عہدیداران، ڈاکٹر ز، پشتونخوا لائرز فارم، پشتونخوا بلڈ بنک کے اراکین نے شرکت کی۔ پروگرام کا پہلا سیشن پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کیلئے مختص تھا جو یونیورسٹی کے سیکرٹری ضیاء خان کاکڑ کے زیر صدارت ہوا جبکہ دوسرے سیشن کی صدارت اساتذہ کی طرف سے یونیورسٹی کے پروفیسر مالک اچکزئی نے کی اور آخری سیشن کی صدارت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے طرف سے پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرؤف لالا نے کی۔ ان سیشنز سے ضیاء خان کاکڑ، شوکت ترین، ڈاکٹرسلیم کرد، پروفیسر مالک اچکزئی، پارٹی کے مرکزی سیکرٹری ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، مرکزی جنرل سیکریٹری عبدالرحیم زیارتوال اور ڈپٹی چیئرمین عبدالرؤف لالانے خطاب کیا۔ جبکہ ممتاز شاعرہ اور ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والی خاتون محترمہ آرزو زیارتوال اور PSOضلع کوئٹہ کے اطلاعات سیکرٹری حفیظ اللہ یاد نے اپنے نظم واشعار پیش کیئے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض شاہ زیب خان اورجبار خان پانیزئی نے سرانجام دیئے۔ سیمینار کے اختتام پر پشتونخوامیپ کے رہنماؤں عبدالرؤف لالا، عبدالرحیم زیارتوال، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، ممتاز ادیبوں، مصنفین غنی خان غنو، شوکت ترین، ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹرسلیم کرد، پشتونخوا ایس او کے رہنماؤں سیف اللہ خان، یار محمد بریال نے قوم اور ملت کیلئے خدمات، یونیورسٹی میں حسن کارکردگی اور اپنے شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دینے والوں اور مختلف شعبہ جات کے پوزیشن ہولڈرز میں سرٹیفکیٹس، پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کے دستخط شدہ، خان شہید کا لکھا ہوا خودنوشت ”My Life And Times” کتاب اور خان شہید ایوارڈز تقسیم کئے گئے۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو ان کے پچاسویں برسی پر خراج عقیدت پیش کی اور ان کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے نسل اور طلباء کو چاہیے کہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے زندگی اور سیاسی افکار کو پڑھے اور اس سے درس لیتے ہوئے جس بدترین اذیت ناک زندگی سے دوچار ہیں سے نجات حاصل کرے کیونکہ خان شہید ہی کے نقش قدم پر چل کر ہم اپنی حالت زندگی بدل سکتے ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی جدوجہد کا آغاز فرنگی سامراج کیخلاف کیا اور اس وقت فرنگی سامراج کے خلاف جو لوگ تھے ہر ایک کے پاس گئے جو بھی آدمی جس میں جدوجہد کی تھوڑی سی بھی رمک تھی ان تک وہ پہنچا اور اپنی فکر و ارادے کا اظہار کیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں پرآج بھی دو مسئلے جو ابھی تک حل طلب ہیں ایک پشتون قومی سوال دوسرا پاکستان میں جمہوری سوال؟خان شہید پاکستان بننے کے بعد 1948 کو گرفتار ہوئے اور پھر 1954 میں
رہا ہوئے اپنی سیاسی پارٹی ورور پشتون کی بنیاد رکھی اور ورور پشتون کا منشور پاکستان میں رہنے والے تمام پشتونوں کی وحدت تھی۔برٹش بلوچستان کے پشتون، خیبر پشتونخوا کے پشتون قبائلی علاقہ جات،اٹک میانوالی سمیت پشتون قومی وحدت کی بات رکھی اور قوم کی مناسبت سے اس صوبے کا نام پشتونستان، افغانیہ،یا پشتونخوا رکھا جائے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر قوم کو اپنی سرزمین اور وسائل پر سیاسی اختیار حاصل ہے، خان شہید نے اپنی سرزمین پر سیاسی اختیار کے حصول کی بات رکھی،خان شہید نے پشتو زبان کی حروف تہجی لیک دود کی بنیاد رکھی،خان شہید پشتونوں کا الگ صوبہ اور اس میں پشتو زبان کو تعلیمی، دفتری، عدالتی، سرکاری، تجارتی زبان کا درجہ دینا چاہتے تھے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ نہ ہونے دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان بننے کے بعد دوسرا سوال جو خان شہید نے رکھا وہ ملک کو آئین دینا اور جمہوریت کا قیام تھا، 1940 کی قراداد کے تناظر میں خان شہید نے مطالبہ کیا تھا کہ جتنے بھی قومی یونٹس ہونگے فیڈریشن میں وہ تمام خودمختار ہونگے اور پاکستان انہی بنیادوں پر تشکیل پا چکا تھالیکن ان تمام باتوں سے انکار کیا گیا اور پھر 1955 میں ون یونٹ کے قیام اور پھر جو ہوا وہ تاریخ میں سب کے سامنے ہیں۔اسی بنیاد پر خان شہید کو جیل میں ڈالا گیا اور اذیتیں پہنچائیں گئی۔ مقررین نے کہا کہ یہ ملک سیاست کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے پورے پاکستان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ووٹ کا حق ہمارے اکابرین کی جدوجھد کے نتیجے میں عوام کو حاصل ہوا ہے لیکن آج ایک بار پھر اس پرچی کی حیثیت نہیں رہی،جس کرنل نے خان شہید کو سزا سنا دی خان شہید نے اس سے سوال کیا کیا اگر اپ کا یہی رویہ رہا تو کیا پاکستان 14 سال قائم رہ سکے گا؟یہ خان شہید کی سیاسی بصیرت تھی لیکن وہی ہواملک دولخت ہوا، 1973 تک 26 سال اس ملک کو بغیر آئین رکھا گیا کسی کی بھی منشا آئین نہیں کہلاتی لیکن اس 73کے آئین کے خلاف مسلسل سازشیں ہوتی رہی پھر اٹھارویں آئینی ترمیم ہوئی اور آج اس اٹھارویں آئینی ترمیم کو بھی نہیں چھوڑا جارہا اور سازشیں کی جارہی ہیے۔ مقررین نے کہا کہ آئین میں پاکستان کی پارلیمنٹ سپریم ہے اور پارلیمنٹ خودمختار ہے لیکن نہ آئین کو مقدم رہنے دیا گیا اور نہ ہی پارلیمنٹ کی عزت و توقیر کا خیال رکھا گیا۔آج ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایک ملازم کے ذریعے ملک کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے اس مذاق کے نتیجے میں آج ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے سنجیدہ قوتوں کو اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ آج یورپی یونین کے بیانات آرہے ہیں کہ اس ملک میں سیاسی لوگوں کی جبری گمشدگی اور تشدد بند کردیں صحافیوں کی آزادی پر قدغن نہ لگائے اور پاکستان کو پوری دنیا کے ساتھ چلنے دیں ان بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ مقررین نے کہا کہ ہم یہ کہتے ہے کہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے ان باتوں کیلئے قربانیاں دیں ملک کو آئین دینے، اس آئین پر عملدرآمد کرنے، ہر ادارے کو آئین کا پابند بنانے، قومی اکائیوں پر مشتمل اس فیڈریشن میں 1940کے قرار داد پر عملدر آمد کرنے، ہر قوم کی اپنی سرزمین پر ان کے وسائل کو تسلیم کرنے انہیں سیاسی واک واختیار دینے، عوام کو ون مین ون ووٹ کا حق دینے، پشتونوں کی اپنی قومی وحدت کے قیام کیلئے تھیں۔ 1973 کے آئین میں صوبائی خودمختاری اس طریقے سے نہیں رکھی گئی لیکن ملک کے قوموں کو اکٹھا رکھنے کیلئے 1973 کا آئین تھا۔ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ دس سال بعد کنکرنٹ لسٹ صوبوں کے حوالے کیا جائیگا لیکن کیا ہوا؟آج اٹھارویں ترمیم بھی لوگوں سے ہضم نہیں ہورہی حالانکہ اس میں بھی پشتون قومی وحدت شامل نہیں اور نہ ہی قومی اکائی اور ہمارے وسائل پر ہمیں اختیار حاصل ہیں۔ خان شہید کی ساری جدوجہد انہی باتوں کیلئے تھی۔خان شہید بلوچوں،سندھیوں، سرائیکیوں کیلئے بھی یہی چاہتے تھے اور یہی کام پنجاب کے مظلوم لوگوں کیلئے بھی ہے۔خان شہید کی شہادت کے بعداس قومی، سیاسی، جمہوری جدوجہد کی ذمہ داری پارٹی کے چیئرمین محترم مشر محمود خان اچکزئی نے سنبھالی اور انتہائی جرات مندانہ،دور اندیشی، سیاسی، شعوری تجربے کی روشنی میں پشتون قومی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہم محمود خان اچکزئی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔مقررین نے کہا کہ آج پاکستان کے سب سے بڑے جمہوری انسان کی حیثیت سے میں نہیں کہتا بلکہ
پارلیمنٹ کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے جمہوری خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں،آج بھی لوگ پارلیمنٹ کی سپرمیسی کیلئے تیار نہیں ہیں آج بھی لوگ جمہور کی حکمرانی کیلئے تیار نہیں ہیں،آج بھی پاکستان قوموں کی برابری کا حقیقی فیڈریشن نہیں ہے،خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے پیروکار کی حیثیت سے ہم پاکستان کو بتانا چاہتے ہیں کہ 1973 کے آئین میں جو ہمارے ساتھ ہوا ہے جن لوگوں نے کیا ہے کیا ایک ایک کو آپ کٹہرے میں لائیں گے؟ کیا ایک ایک کیخلاف کیس بنائیں گے آپ ملک نہیں سدھار سکتے ہیں ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا؟ 1958 کے مارشل لاء کے پورے دورانیہ میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو جیل میں رکھا گیا،33سال فرنگی اور ملک کے آمروں کے جیلوں اور سخت ترین سزائیں دی گئی۔ جنرل ضیا کی آمریت میں محمود خان اچکزئی ساڑھے چھ سال روپوش رہے، ہمارے 7 اکتوبر کے شہداء،مشرف کے مارشلا میں اپریل2000کے آپریشن کے شہدا ء، گلستان، توبہ اچکزئی کے شہدا،12مئی سانحہ کراچی کے شہدا۔ ان قوتوں کی نظروں میں ہماری چھوٹی سی ہی جماعت صحیح لیکن جمہوریت کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں ہماری پارٹی نے دیں ہیں۔ آج بھی پارٹی کو سزائیں دی جارہی ہے کیونکہ ہم ملک میں آئین کی بالادستی چاہتے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ اس وقت پورے ملک میں پشتونوں کے سر ان کے جان و مال کو تحفظ حاصل نہیں،پشتونوں کے تجارت ڈیورنڈ خط پر قدغن اور پابندیاں ہیں ایک مہینے سے ذیادہ ہوچکا ہے کہ چمن میں پرلت / دھرنے میں ہزاروں، لاکھوں لوگ بیٹھیں ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے،ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام قومی وسائل بجلی،پانی،گیس،تیل،کرومائیٹ،کوئلہ، کاپر،سونا اور چاندی قبضہ ہوچکے ہیں ہمارے جنگلات قبضہ ہوچکے ہیں بے دریغ کٹائی ہورہی ہے اس پہ ہمارا اختیار نہیں ہے۔پشتون دیار غیر میں جب مزدوری کیلئے جاتے ہیں وہاں انہیں بے جا تنگ کیا جاتا ہے، پشتون کو سر و مال کا تحفظ حاصل نہیں۔ہم پشتون بلوچ صوبے میں بھی برابری چاہتے ہیں، یہاں ہم برابری کی بنیاد پر رہیں گے اگر ہمیں برابری حاصل نہیں ہوگی اور پشتون وزیراعلی نہ بن سکتا ہو تو ایسی صورت میں ہم یہاں پر بھی رہنے کو تیار نہیں۔ پشتون کو بھی وزیراعلیٰ بننے کا حق حاصل ہے ہم اپنا حصہ ہر کسی سے لے سکتے ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں یہاں بلوچ وزیر اعلیٰ ہو، پشتون گورنر ہو، پشتون وزیر اعلیٰ ہو بلوچ گورنر ہو، سپیکر پشتون ڈپٹی سپیکر بلوچ یا بلوچ سپیکر ہو پشتون ڈپٹی سپیکر اس صوبے کے ہر شعبہ زندگی میں برابری ہی کی بنیاد پر رہا جاسکتا ہے ناانصافی نہ وفا ق اور نہ صوبے میں تسلیم کرینگے۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم نے پشتون کو اس صوبے میں سیال بنانا ہے اور اپنی وحدت قائم کرنی ہوگی۔مقررین نے کہا کہ ہم آج خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی پچاسویں برسی کے سیمینار کی مناسبت سے ہم پورے پاکستان کو بتلانا چاہتے ہیں کہ پشتونوں کے ساتھ جو سلوک اور رویہ روا رکھا گیا ہے یہ ہمیں قبول نہیں اس کا ازالہ کرنا ہوگا اور پشتونوں کو پورے پاکستان میں آئین پاکستان کے تحت جس میں لکھا ہوا یے کہ ملک کا ہر باشندہ پاکستان کے اندر کسی بھی شہر میں تجارت،دکان گھر،بدوباش رکھ سکتا ہے بنا سکتا ہے ہمیں بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے لیکن اگر پاکستان کے کسی بھی شہر میں سندھ پنجاب میں اس شق کی پامالی ہوتی ہے تو پھر ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ ہم نے کیاکرنا ہے کیونکہ یہ تمام صورتحال اب ناقابل برداشت ہوچکی ہیں۔