افغان کڈوال عوام کے ساتھ جاری ناروا غیر انسانی غیر اسلامی و غیر قانونی چلن نفرتوں کو جنم دے گی،محمودخان اچکزئی
دکی (ڈیلی گرین گوادر) افغان کڈوال عوام کے ساتھ جاری ناروا غیر انسانی غیر اسلامی و غیر قانونی چلن نفرتوں کو جنم دے گی، لوگ افغانوں کو تنگ کرکے ان سے پیسے بٹور رہے ہیں یہ غیرانسانی رویہ برداشت نہیں کیا جاسکتا، دنیا میں مہاجرین کیلئے جو قانون رائج ہے وہی اس ملک میں بھی ہونا چاہئے۔افغان کڈوال عوام اقوام متحدہ کے ادارے UNHCRکے تحت رجسٹرڈ ہیں،پہلے انہیں اسلامی مجاہدین بناکر لایا گیا اور آج انہیں زبردستی نکالا جارہا ہے، افغانوں نے ہمیشہ ظالموں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور اپنے وطن کی حفاظت کی ہے،بین الاقوامی قوانین اور ملکی آئین وقانون کے مطابق افغان کڈوال عوام کے معاملے کو دیکھا جائے،جبکہ اقوام متحدہ اس کے ذیلی ادارے UNHCRاور عالمی قوانین جو کہ مہاجرین کیلئے ہیں افغان کڈوال عوام کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے، خود ساختہ قوانین کے تحت زور زبردستی افغانوں کی بیدخلی، گھروں کو مسمار کرنے، ان کے معاش وضروری اشیاء کو لوٹنے،گرفتاریاں، تھانوں میں بند کرنے جیسے غیرآئینی، غیر انسانی، غیر قانونی، غیر جمہوری اقدامات کو فی الفور ترک کیا جائے اور مظلوم و بے گناہ عوام کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پاکستان پانچ الگ الگ قوموں کا مشترکہ فیڈریشن ہے،یہاں کا قومی سوال آج بھی حل طلب ہے،قوموں کو انکے قدرتی وسائل پر اختیار دیا جائے انکی قومی زبانوں اور ثقافت کا احترام ہو اور یہاں انصاف کا بول بالا ہو تب جاکر یہ ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمودخان اچکزئی نے ضلع دکی کے کلی حاجی کاریز لونی، جنگل کچھ کلی خان محمد صدوزئی اور کلی سانگوڑی میں عوامی جرگوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر احمد خان،محمد نسیم خان،لعل خان،محمد قاسم،عبداللہ خان، کبیر خان صدوزئی،ولی جان صدوزئی،سفر جان صدوزئی، معصوم صدوزئی،بائس خان، رزاق خان،حیدر خان، محمدصدوزئی،رحیم خان،باچا خان صدوزئی اور ہاشم خان صدوزئی نے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مستعفی ہوکر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ پارٹی چیئرمین ملی مشر محترم محمودخان اچکزئی نے انہیں خوش آمدید کہا اور کہا کہ پشتونخوا میپ کے کارکن کی حیثیت سے آپ سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ظالم اور مظلوم کی لڑائی میں مظلوم کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پشتون آج انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں پورے ملک میں انکے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے انکی تاریخ اور ثقافت کو مسخ کرکے انہیں مختلف ناموں سے پکار کر ان پر الزامات لگائے جارہے ہیں جو کہ حقائق کے برخلاف ہے۔ پشتونوں کو اپنے وطن کی قدرتی نعمتوں سے محروم کرکے انہیں دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے دوسرے وطنوں میں مسافری پر مجبور کیا گیا ہے لیکن وہاں بھی پشتونوں کو اب عزت کی روزی کمانے کیلئے نہیں چھوڑا جارہا ایسے حالات میں پشتونوں کو اپنے مستقبل اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے سوچنا ہوگا متحد ومنظم ہونا ہوگا۔میروائس نیکہ کے دور میں پشتونوں پر مظالم ڈھائے گئے لیکن انہوں نے جدوجہد کرکے قوم کو منظم کیا اور ظالم قوتوں کا صفایا کرکے پھر بعد میں اصفہان تک انکے جائینشینوں نے حکومتیں قائم کیں پشتون متحد نہ ہوئے تو اس سے بھی بُرے حالات آئینگے۔ لوگوں نے ہمارے ساتھ سیاست کرتے ہوئے یہ مشہور کیا ہے کہ سیاست کی معنی جھوٹ اور فریب ہے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور انکے بانی خان شہید عبالصمدخان اچکزئی نے سیاست کو عبادت سمجھ کر وطن کی خدمت کا بیڑا اٹھا رکھا۔ اور اس راہ میں بیش بہا قربانیاں دیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوا میپ پشتونوں کے حقوق کے حصول کی سیاست کررہی ہے پشتونوں کو علم و ہنر کے میدان میں مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ بے ہنر ہاتھ کی کمائی سے اب دو وقت کی روٹی کمانا بھی محال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہنرمند ہاتھ یہ ہیں کہ کوئی ڈاکٹر ایک آپریشن کرکے پانچ لاکھ روپے تک کمالیتے ہیں اور ایک آرکیٹیکچر، انجینئر ایک نقشہ پنسل سے بناکر پچاس لاکھ تک کماسکتے ہیں لیکن بے ہنر ہاتھ بیلچہ اور گنتی سے روزانہ صرف آٹھ سو کماسکتے ہیں جبکہ اس وقت 50کلو آٹے کی قیمت بھی 7 ہزار سے اوپر ہے۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ پشتونوں کی آبادی اس ملک میں آٹھ کروڑ ہے سو آدمیوں میں سے ایک قومی اہداف کیلئے وقت دے تو یہ آٹھ لاکھ لوگ بن جاتے ہیں اور آٹھ لاکھ لوگ کسی بھی ہدف کیلئے آواز اٹھائے تو اسے ضرور مانا جائیگا،اس ملک کی تباہی و بربادی کی بڑی وجہ بے انصافی ہے وہ معاشرہ وہ گاوں وہ گھر نہیں چل سکتا جہاں انصاف نہ ہو کچھ، لوگ یہاں اسلامی بھائی چارے کی بات کرتے اور کہتے ہیں کہ قوم کی بات نہ کی جائے ہم سب مسلمان بھائی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان بھائی ہیں لیکن بات در اصل یہ ہے کہ آج ہی ہندوستان کا کوئی ہندو کوئی سکھ یا کسی دوسرے ملک کا کوئی عیسائی مسلمان ہوتا ہے تو وہ پشتونوں کے ساتھ اسلامی بھائی چارے میں بندھا ہے لیکن میرے دکی، ہرنائی، شاہرگ اور سماولنگ کے کوئلے میں ہرگز میرا شراکت دار نہیں۔ ماہرین نے قوم کی تعریف یوں کی ہے کہ انسانوں کا وہ گروہ جسکی زبان و ثقافت مشترک ہو جغرافیہ ایک ساتھ متصل ہو اور انکی تاریخ ایک ہو وہ ایک قوم کہلاتی ہے۔ لونی میں اس وقت موجود پشتو زبان والوں کا تعلق ایک قوم سے ہے اور اس پہاڑ کے اس پار لوگ آباد ہیں جن کی زبان اور ثقافت رسم و رواج الگ ہیں انکا تعلق دوسری قوم سے ہے اسی طرح ان سے بھی آگے جاکر ایران جہاں زبان و ثقافت بدلتی ہے وہ الگ قوم ہیں ان سے آگے عرب ہیں۔ قوم کا ذکر اللہ تعالی قران کریم میں بھی کیا ہے جب فرعون کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا اور کہا کہ اے موسی جاؤ اور اپنے قوم کو فرعون کی بندگی سے نجات دلادو، غلامی کو اللہ تعالی نے بندگی کہا ہے قوم اور زبان کی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ تعالی اپنے چار آسمانی کتابوں کو الگ الگ زبانوں میں نہیں بھیجتا اللہ تعالیٰ حضرت محمدﷺ سے کہتا ہے کہ میں نے قرآن کریم کو سادہ آسان اور آپ کے قوم کی زبان میں بھیجا ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ آپ لوگوں نے ہماری مہمان نوازی کی، خدمت کی اور ہمیں عزت بخشی اللہ پاک آپ کو عزت بخشے، ہمیں اپنی قوم کو مشکلات حالات سے نجات دلانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی عقل شریک کرنا ہوگا، اورہم اتحاق واتفاق اور منظم ہوکر ہی پشتون قومی تحریک کے اہداف کو حاصل کرسکتے ہیں۔