پشتونوں کی خاموشی کو ان کی بے غیرتی نہ سمجھی جائے،محمود خان اچکزئی

کوئٹہ (ڈیلی گرین گودر)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پشتونوں کی خاموشی کو ان کی بے غیرتی نہ سمجھی جائے، سندھ، پنجاب سمیت ملک بھرمیں پشتونوں کے ساتھ روا رکھا جانیوالا رویہ ناقابل برداشت بن چُکا ہے، پاکستان سے کہنا چاہتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بناکر تجارت کو آزاد کیا جائے،بہترین سفارتی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے معیشت کیلئے درآمدات اور برآمدات پر توجہ دی جائے۔افغانستان میں 40سال کی طویل جنگ مسلط کی گئی تمام دنیا افغانوں کی مقروض ہے، آج بھی افغان مہاجرین کے نام پر کروڑوں ڈالرز اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے آرہے ہیں، ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ افغان مجاہدین جو لڑرہے ہیں وہ دراصل ہماری آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں کیونکہ روس افغانستان کے بعد یہاں کا رخ کریگا افغانوں کو زبردستی نکالنے یا جائیدادیں ضبط کرنے والی باتیں غلط ہیں، کوئی افغان شہری نہ اپنی جائیداد فروخت کریں اور نہ ہی اتنی جلدی جانے کی تیاری کریں ہم نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمن صاحب، پی ٹی آئی، اے این پی، ایم کیو ایم سمیت کئی پارٹیاں شامل تھیں میاں محمد نواز شریف نے مجھ سے کہا کہ جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں پاکستانی شہریت دینی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے پشتونخوامیپ ضلع کوئٹہ کے تحصیل صدر سے مربوط ترین شور علاقائی یونٹ کے زیر اہتمام حاجی کاوک آکا خلجی،حاجی محمد عارف خلجی، حاجی احسان اللہ خلجی، حاجی عبدالظاہر ملاخیل،حاجی صدیق اللہ خلجی،حاجی عبدالنبی سلیمانخیل، حاجی گل باران،حاجی عبداللہ خان،حاجی بور جان خلجی کی قیادت میں سینکڑوں افراد کی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جس سے پارٹی کے صوبائی صدر عبدالقہار خان ودان، ضلع کوئٹہ کے سیکرٹری سید شراف آغا، تحصیل صدر سیکرٹری نعیم پیر علیزئی، حاجی گل باران خلجی،میوو خان نے خطاب کیا۔ جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض راحت خان بازئی نے سرانجام دیئے۔ اس سے قبل محتر م محمود خان اچکزئی کا نواں کلی پہنچنے پر پارٹی کارکنوں نے پرتپاک استقبال کیا گیا اور ریلی کی قیادت میں انہیں ملک عبدالخالق روڈ شمولیتی اجتماع کے پنڈال تک پہنچایا۔ شمولیتی پروگرام میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، صوبائی سیکرٹری کبیر افغان، صوبائی ڈپٹی سیکرٹریز نصیر ننگیال، ملک عمر کاکڑ، حضرت عمر اچکزئی، حبیب اللہ ناصر ایڈووکیٹ، حبیب الرحمن بازئی، منان خان بڑیچ، حاجی صورت خان کاکڑ، سردار ادریس بڑیچ، گل خلجی، نظام عسکر، سلیم لالا ژوب، سردار اکبر ترین، ضلع کوئٹہ کے ایگزیکٹو ز،تحصیل صدر کے ایگزیکٹوز بھی موجود تھے۔ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نئے شامل ہونیوالوں کا شکریہ اد ا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم ان کے پاس آئے اور آپ تمام کارکنوں اور ساتھیوں کے مشکور ہیں کہ اس اہم وقت میں اپنے کام کاج چھوڑ کر یہاں آئے۔ ہم بالکل اس فکر کے ساتھ نہیں آئے کہ ہم عقل کل ہیں جیسا ہم کہیں گے ویسا آپ کرینگے بلکہ ہم اس لیئے آئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنا عقل اور اپنی دانش شریک کرسکیں ہم تمام پشتونوں کو سیال اور اپنے وطن کے محسنین سمجھتے ہیں۔ ہم نے ہر وقت پشتونوں سے یہ درخواست کی ہے کہ ہم ایک قوم، ایک نسل کے لوگ ہیں ایک وطن کے باسی ہیں ہماری عزت اور بے عزتی ایک ہے اور ہمارے پورے قوم کی عزت وبے عزتی، ننگ وناموس اس مٹی کے ساتھ منسلک ہے جہاں ہمارے گھر ہیں۔ اگر یہ سرزمین عزت سے ہوگی تو اس کا خان، مُلا، پیر فقیر غریب سرمایہ دار سب عزت سے ہونگے اور اگر خدانخواستہ یہ مٹی سرزمین اپنے مالک اور اپنے اختیار سے محروم ہوگی تو پھر ایسی حالت ہوگی جس طرح آج ہے، اس کیلئے ہم پشتونخوا وطن کے گھر گھر، چپے چپے میں پھر رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہمارا کوئی غرض کوئی مقصد نہیں بے غرض صرف خدا کی ذات ہے، باقی خدا کے پیغمبر بھی جب کسی گاؤں کا رُخ کرتے تو ان کا غرض ہوتا تھا، ہمارا غرض یہ ہے کہ یہ قوم ہماری قوم ہے بُرے دنوں میں گری ہوئی ہے مشکل حالات کے ساتھ نبردآزما ہے ہم قوم سے کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ساری مشکلات ومسائل ہمیں خود ہی حل کرنے ہونگے، اس کے حل کیلئے ہمارے پاس کوئی نہیں آئیگا، قوم کے تمام باشندوں کا فرض ہے کہ اگر ہماری باتوں میں کوئی بات انسانیت، اسلام یا پشتون ولی کے دائرے سے نکلی ہو ہمیں بتا دیں ہم زندگی بھر وہ بات نہیں کرینگے لیکن اگر ہماری باتوں میں صداقت ہے تو ہمارا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔ اور سب کو اس پارٹی میں شامل کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم پشتون قوم کی سوئی ہوئی قسمت کو جھگانے نکلے ہیں، یہ وطن ہمیں کسی نے خیرات یا زکوۃ میں نہیں دیا یہ وطن ہمیں اپنے آباؤ اجداد نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے سروں کے نذرانے پیش کرکے اپنا خون بہا کر ہمارے لیئے بچا رکھا ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ پشتون اس دھرتی پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے بھی پہلے آباد تھے، ہماری بدبختی یہ رہی کہ ہمارا وطن دنیا کے ایک ایسے اہم چوراہے پر پڑا ہے کہ جب دنیا کا کوئی بھی زور آور دوسرے وطنوں کوقبضہ کرنے ان کے وسائل لوٹنے کیلئے آتے تو کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ہمارے وطن سے ہوکر انہیں گزرنا پڑتا تھا، ہندوستان کو انگریز لوگوں نے سونے کی چڑیا کا نام دیا تھا اور سونے کی چڑیا کو پکڑنے کیلئے انہیں ہمارے وطن کے راستے سے آنا ہوا۔ہم انہیں اپنے وطن میں سے جب گزرنے نہیں دیتے تو وہ ہمارے ساتھ لڑپڑتے اس لیئے ہمیں اپنے وطن کی دفاع اور مٹی وناموس کے تحفظ کیلئے قربانیاں دینی پڑتی، اب لوگوں نے پوری دنیا میں خطرناک ترین پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ پشتون دہشتگرد ہیں،وحشی ہیں اور غیر مہذب لوگ ہیں حالانکہ ایسا قطعاً نہیں ہے دنیا کے کسی بھی تاریخ دان نے یہ نہیں لکھا کہ پشتون وحشی، فرقہ پرست، نسل پرست یا دہشتگرد قوم ہے بلکہ اکثر مستشرقین، مورخین نے پشتونوں کے بارے میں لکھا ہے کہ پشتون مہذب، مہمان نواز اور پرامن لوگ ہیں ان کے وطن میں رات گزارنا اور کھانا مفت ملتا ہے کسی بھی مہمان کو، موہن لعل، چارلس میسن سمیت کئی غیر ملکی سیاح، تاریخ دان اور جاسوس بھی یہی لکھتے ہیں، سب لکھتے ہیں کہ پشتونوں نے ہمارے ساتھ نژادی نسلی یا کسی قسم کی بھی نفرت نہیں رکھی۔ میسن لکھتا ہے کہ جب میں لسبیلہ سے اس راستے پر آیا تو پشتون بابئی قبیلے کے لوگوں کے قافلے میں شامل ہوا، قلات سے ذوالفقار بابئی سے ملکر پھر چلتن پہاڑ پر چڑھا جہاں دوربین کے ذریعے افغانستان خواجہ عمران کے پہاڑیوں کو دیکھا وہ لکھتے ہیں کہ ان پشتونوں کو یہ پتہ تھا کہ میں عیسائی ہوں لیکن یہ مجھے اپنے دسترخوان پر بٹھاتے، مشترکہ برتن میں پانی پیتے لیکن اپنی زبان میں اپنے آپس میں کہتے رہے کہ یہ جاسوسی کیلئے آیا ہے، پھر بھی مجھ سے نژادی نفرت نہیں رکھی۔ پشتون قوم تمام انسانیت کو آدم علیہ اسلام اوربی بی حوا انا کی اولاد سمجھتی ہے، ہر پشتون باشندہ اپنی قوم کا سفیر ہے سب نے دنیا بھر میں پشتونوں کا اپنا اصل چہرہ ان کی خاصیتیں دکھانی ہونگی، اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپ ان تمام جگہوں کا احترام کریں جہاں میرا نام لیا جاتا ہو، ہم تمام دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ میری آزادی، میری خودمختیار ی، میرے وطن میرے مسجد، میری ثقافت کا احترام کریں میں آپ کے مذہب، آپ کے فرقے، کلچر،عبادت گاہ، زبان کا احترام کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ جو پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ پشتون دہشتگرد ہے اگر خدانخواستہ اس طرح ہوتا تو ہمارے آباؤ واجداد علاؤالدین خلجی، ابراہیم لودھی، شیر شاہ سوری اور دیگر کس طرح ہندوستان پر صدیوں تک حکمرانی کرسکتے اور انتہائی امن وانصاف کی حکمرانی، صدیوں تک دہشتگرد، کروڑوں لوگوں پر حکمرانی نہیں کرسکتے تھے، آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کا سب سے بہترین بادشادہ شیر شاہ سوری تھا، پشتونوں سے اچھے لوگ کہیں نہیں ملینگے کیونکہ آپ لوگ سندھ، پنجاب چلے جائیں ان لوگوں کا ایسا کلچر نہیں جس طرح پشتونوں کی ثقافت میں ہے، یہاں امیر، غریب، نواب، کاریگر، مزدور سب ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاسکتے ہیں،جس کا دوسرے قوموں میں تصور نہیں۔ ہم دوسروں کے وطنوں کو قبضہ کرنے کے خواہش مند نہیں بلکہ اپنی تاریخی وطنوں کے وسائل پر ان کے بچوں کا حق چاہتے ہیں، ہمارا وطن دنیا جہاں کے قدرتی معدنیات سے بھرا ہوا ہے اس کے باوجود پشتون دنیا کے بڑے شہروں میں محنت مزدوری کیلئے مسافری کی زندگی گزار رہے ہیں، خدا کی جانب سے ہماری قسمت یہ ہے کہ ہمیں پوری دنیا سے زیادہ غنی وطن دیا ہے لیکن ہمارا اس پر اختیار نہیں، ہم پشتون اپنے آپس میں بڑے سخت مزاج لوگ ہیں لیکن پوری قوم بحیثیت قوم اپنے قومی وسائل پر اختیار کیلئے نہیں اُٹھتے۔ اس لیئے مل کر اٹھنا ہوگا اور جدوجہد کرنی ہوگی۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ دنیا کا یہ قانون ہے کہ اگر کسی گھر میں آگ لگے تو اس گھر کے انسانوں کو یہ کھلی اجازت ہے کہ وہ دوسرے ہمسایوں کے گھروں کی دیواروں کو پھلانگ کر داخل ہوسکتے ہیں، افغانوں کے وطن میں جنگ شروع ہوئی تو وہ یہاں لائے گئے، جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ انہیں لاکر جہاد کیلئے بھیجا جائیگا،افغانستان پر سالوں سے جنگ مسلط رہی، افغانوں کو تباہ وبرباد کیا گیا، آج پوری دنیا جنہوں نے افغانوں کی بربادی میں حصہ لیاتھا وہ سب افغانوں کے قرضدار ہیں۔ دنیا کا قانون یہ ہے کہ جو بچہ جہاں جنم لیتا ہے اُسے اُس ملک کی شہریت دی جاتی ہے، دوسرا قانون یہ ہے کہ اگر کسی ملک کا کوئی شہری کسی دوسرے ملک میں د س سال سے زیادہ گزارے اُس کا ریکارڈ دیکھ کر اُسے یہاں کی شہریت دی جاتی ہے۔ تیمور لنگ کے بعد جو افغانستان بنا تھا اسے لوگوں نے گراکر اینٹ سے اینٹ بجا دی، 40سالہ جنگ ان پر مسلط کی گئی یہ سب ممالک افغانستان کی سلامتی اور تعمیر نو کے ذمہ دار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے