طالب علموں کو طب کیساتھ سیاست اور سیاسی جدوجہد کی طرف بھی توجہ دینا ہوگا،خوشحال خان کاکڑ

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ نے کہا ہے کہ میڈیکل کے طالبعلموں کو طب کے ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی جدوجہد کی طرف بھی توجہ دینا ہوگا کیونکہ ایک فلاحی حکومتی نظام کے بغیر صحت مند معاشرے کا قیام صرف خواب ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ایک مضبوط سیاسی نظام کے بدولت ہی عوام کیلئے خدمات کی بہتر فراہمی ممکن بنایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام بولان میڈیکل کالج میں نئے طالبعلموں کیلئے ویلکم پارٹی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کے شعبے کو ایک خاص مقام حاصل ہیکیونکہ اس شعبے سے وابستہ افرادخصوصا ڈاکٹروں کو مسیحا کا لقب دیا گیا ہے جسکی وجہ سے آپ کی ذمہ داریوں میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور آپ نے اپنے منفردکردار کی وجہ سے سیاسی امور پر بھی توجہ دینا ہوگا کیونکہ ایک مضبوط سیاسی و حکومتی نظام اور معاشرے میں شعور کے بدولت ہی صحت کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے اور ایک فلاحی نظام ہی معاشرے کے ہر فرد کیلئے صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات کی فراہمی کا ضامن بن سکتا ہے۔انہوں نے میڈیکل کے طلبا پر زور دیا کہ وہ دن رات انتھک محنت کر کے قابلیت کے بل بوتے پر ایسا مقام حاصل کرے جس پر والدین اور معاشرہ فخر کر سکیں اور طب کے شعبے میں بہترین خدمات فراہم کر کے معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے طبقات کے علاج معالجے میں بھر پور کردار ادا کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں تمام پالیسیاں عوام کی ضرورتوں اورمسائل و مشکلات جاننے کے بغیر اشرافیہ، سرمایہ دار، جاگیردار اور دیگر مراعات یا فتہ طبقے ترتیب دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ خصوصا دیہات صحت کی سہولیات سے مسلسل محروم ہے جبکہ معمولی بیماریوں کی وجہ سے لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جو اس جدید دور میں کسی المیے سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوا میپ کی جدوجہد کا بنیادی مقصد ہر شعبے میں اپنے عوام کو بہترین خدمات کی فراہمی اور ان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنا ہے اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ اگر ہمارے غیور عوام نے ہم پر اسی طرح اعتماد جاری رکھا تو ہم تمام مسائل و مشکلات سے انہیں ضرور نجات دلائینگے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی بنیاد کو لاہور کے 1940 کے قرارداد کو قرار دیا جاتا ہے اور اس قرارداد میں اقوام و عوام کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ملک میں تمام اقوام کی ریاستیں آزاد اور نیم خودمختیار ہونگے لیکن اس ملک کے 75 سال کی تاریخ میں ایک دن کے لئے بھی اس قرارداد کی رو ح پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ اس ملک کو محکوم اقوام اور مظلوم عوام کے قید خانے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے اور طویل عرصے کے بعد ملکی آئین کے بننے کے باوجود اس میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے جو وعدے کئے گئے تھے ملک کے اقوام و عوام کی مکمل اکثریت کو وہ بنیادی حقوق تک حاصل نہیں اور ملک کے پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی جسکی تشکیل ایک بالا دست قوم کے اکثریت کے بل بوتے پر بنتی ہے وہ بھی ملک کے اقوام و عوام کو قومی حقوق و اختیارات نہیں دے سکیں جبکہ لسانی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل قوموں کی برابری تسلیم کرنے سینیٹ کو قومی اسمبلی کے برابر اختیار دینے ملکی افواج میں ہر قوم کو برابری کی بنیاد پر حصہ دینے کے مطالبات ملک کے محکوم اقوام کے برحق مطالبات ہے اور مرکز کے پاس چار محکموں کے سوا باقی تمام اختیارات صوبوں کے حوالے کرنا اور اس پر عمل در امد ملک کے استحکام کا باعث ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے