یکجہتی اور احتجاجی تحریک میں بھرپور عوام کی شرکت نے حکومت کو بارڈر تجارت بحال کرنے پر مجبور کردیا، جان محمد بلیدی
تربت(ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کامیاب دھرنا جلسہ اور ریلی پر تمام سیاسی جماعتوں، بارڈر تجارت سے وابستہ تنظیموں اور تاجر یونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بارڈر تجارت کی بحالی کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی بہت بڑی کامیابی کرار دیا۔انہوں نے کہاکہ یکجہتی اور احتجاجی تحریک میں بھرپور عوام کی شرکت نے حکومت کو بارڈر تجارت بحال کرنے پر مجبور کردیا۔انہوں نے کہاکہ آج کا اجلاس اگلا لاعمل کے لیے تھا لیکن چونکہ سرحدی تجارت بحال ہوا ہے اور ہمارا ایک ہی مطالبہ تھا سرحدی تجارت کو پہلے کی پوزیشن پر بحال کیا جائے حکومت نے ہمارا مطالبہ منظور کردیا اس لیے اس تحریک کو مزید جاری رکھنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر بارڈر سے متعلق حکومت کے فیصلے کی تبدیل ہونے کی صورت میں ایسے زیادہ طاقت و قوت سے فعال و متحرک کیا جائے گا انہوں نے کہاکہ سرحدی تجارت ہمارے لوگوں کی ضرورت اور زریعہ روزگار ہے اس کے خلاف ہر سازش کا مقابلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں روزگار کے دوسرے زرایعے نہ ہونے کے برابر ہیں لوگوں کی زندگیوں کا گزر بسر ایسی کاروبار سے وابستہ ہے لہٰذا اس کے خلاف نیشنل پارٹی بھرپور انداز میں مزاہمت کرے گئی۔ اجلاس سے آل پارٹیز کے کنونیر سید جان گچکی، پاکسنان پیپلزپارٹی کے نواب خان شمبیزئی، حق دو تحریک کے حاجی ناصر پلیزئی، بی این پی کے آرگنائزر ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ، جے یو آئی کے خالد ولید سیفی، نیشنل پارٹی کے صدر مشکور انور، بارڈر ٹریڈ الائنس کے وارث رند، رابطہ کمیٹی کے داد جان سبزل، ندیم شمبیزئی کیچ بارڈر الائنس فدا حسین دشتی، جاوید بلوچ، حاجی لشکری، اسلم شمبیزئی، ڈاکٹر محمد حیات اور عبدالستار کریم سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہاکہ تحریک کی کامیابی پر نیشنل پارٹی کے مرکزی سکریٹری جنرل جان محمد بلیدی اور نیشنل پارٹی کے بروقت تحریک پر ان کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہاکہ بارڈر تجارت میں ابھی تک بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں بارڈر تجارت میں کرپشن اور ٹوکن نظام سے کاروباری افراد بری طرح متاثر ہیں تجارت کے لئے چونکہ ایک ہی راستہ (گیٹ) ہے جس سے گزرنے میں مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے اس میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں نیشنل پارٹی کے زمہ دار دوستوں، سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور بارڈز تنظیموں اور زمباد مالکان کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔