سائفر کیس: عمران خان کی درخواست ضمانت مسترد

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت نے سائفر کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دیں۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ اسپیشل پروسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے استدعا کی کہ سائفرکیس کی سماعت ملتوی کر دیں، دیگر اسپیشل پراسیکیوٹرز کو بھی سپریم کورٹ جانا ہے۔وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے دلائل دینے کی کیونکہ ہم نے بھی ہائیکورٹ جانا ہے۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ سائفرکیس کی درخواست ضمانت پر سماعت تو آج ہوگی، یہ سن لیں۔

وکیل صفائی سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ہر سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹرز کوئی بہانا کرتے ہیں، ذوالفقار نقوی سینیئر ہیں، بار بار مداخلت کرنا تاخیر کرنا اچھا نہیں، مجھے کم سے کم ایک گھنٹہ تو دلائل کے لیے دیا جائے، ایک نہیں تین تین اسپیشل پراسیکیوٹرز سائفرکیس میں ہیں۔اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقارنقوی نے موقف اپنایا کہ پراسیکیوشن جیسی ہی فارغ ہوتی ہے جوڈیشل کمپلیکس پہنچ جائے گی، کیا ہم سپریم کورٹ چھوڑ دیں ؟ یہ ہائیکورٹ چھوڑ نہیں رہے اور ہمیں سپریم کورٹ چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں، سیکرٹ ایکٹ عدالت میں جھوٹ کیوں بولیں گے؟۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اسپیشل پراسیکیوٹرذوالفقارنقوی کی استدعا مسترد کر دی اور اسپیشل پراسیکیوٹر کی غیر موجودگی میں درخواست ضمانت پر پی ٹی آئی وکلاء کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اتنا کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جتنا چیرمین پی ٹی آئی کو بنایا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن پاکستانی ہیں، بطور وزیراعظم ملک کی خودمختاری کا سوچا، ان کے خلاف 180 سے زائد کیسزدرج کیے گئے، 140 سے زائد کیسز چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے قبل درج کیے گئے۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اتھارٹی کا غلط استعمال کرتے ہوئے سائفر کیس کا مقدمہ درج کیا، سائفر کیس کے مقدمے میں سب کے جلد بازی میں نام نامزد کیے گئے۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے وکیل سلمان صفدر کے دلائل کے دوران مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کی کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں، ان کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں، اگر اسدعمر کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی اپنی مرضی، تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسد عمر کو آگاہ کیا جائے گا۔

اسد عمر کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہی نہیں تو ضمانت کنفرم کر دی جائے۔ جج ابوالحسنات نے کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق اسدعمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں، اسدعمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا۔جج ابوالحسنات نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسد عمر کی گرفتاری مطلوب نہیں، اگر اسدعمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلےگی، گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف ائی اے اسدعمر کو پہلے آگاہ کرے گی۔

وکیل سلمان صفدر نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے، وزارت داخلہ نے سائفرکیس ہائی جیک کیا، سائفر واشنگٹن سے بھیجا گیا جس کی وصولی وزارتِ خارجہ نے کی۔وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کیس میں ذاتی مفادات حاصل کرنے کا الزام ہے، عمران خان پر سائفر کیس میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام ہے، اعظم خان کا ذکر مقدمے میں ہے، کیا اعظم خان عدالت ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟۔

چیئرمیں پی ٹی آئی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ عمران خان سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا، الزام لگایا گیا کہ چیرمین پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا، کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے۔وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے کہ سایفرکیس سے بیرون ملک طاقتیں مضبوط ہوئیں، سایفر کیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923 میں پیدا نہیں ہوا ہوگا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جو توشہ خانہ کیس کی کڑکی میں پھنس گئے ہیں انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفر کیس کی تحقیقات جاری رہیں، مقدمہ تب بنایا جب چیرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، چیرمین پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی نے اکہتر سال کی عمر میں جرم کی دنیا میں قدم رکھا، گزشتہ سماعت پر انسدادِ منشیات کے جج نے بطور ایڈمنسٹریٹیو جج سماعت کی، ایڈمنسٹریٹیو جج نے کہا یہ تو انسدادِ منشیات کی عدالت ہے، میں نے کہا چیرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے، جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شئیر کرنا ہے، سیکرٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا، ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔

جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیئے کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 کیا لاگو ہوتاہے یا نہیں ؟ سائفر کیس سب اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے، سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا، لیکن سائفر ہے کہاں ؟ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے کیا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفرکیس میں ملک دشمن عناصر سے کچھ بھی شئیر نہیں کیا گیا، قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اگر رات گئے بھی بیٹھنا پڑے تو کوئی نہیں گھبرائے گا، اب معلوم کرنا ہے سائفر کیس سیکشن 3 اے کا ہے یا سیکشن 3 بی کا، پراسیکیوشن بتائے کہ بیرون ملک کس کو چیرمین پی ٹی آئی کے سائفر پر بیان سے فائدہ ہوا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے قانون کو توڑ مڑوڑ کر سائفر کیس بنایا جو قابل ضمانت ہے، سائفرکیس تو بنایا ہی بیرون ملک طاقتور کے ساتھ معلومات شئیر کرنے پر ہے، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا، کیس بنتا ہے تو پوری کابینہ پر بنتا ہے، فرد واحد پر نہیں بنتا۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 7 مارچ 2022 کو سائفر وزارت خارجہ کو موصول ہوا، وزیراعظم ہاؤس کے آفیشلز کی زمہ داری ہے کہ سائفر کدھر گیا، سائفر کی زمہ داری وزیراعظم کی نہیں بنتی، ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی بنتی، اگر سائفر جرم ہوتا تو 31 مارچ 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے کیوں رکھاجاتا ؟ سائفر کا مسئلہ قومی سلامتی کمیٹی میں رکھا گیا، فیصلہ ہوا غیرملکی سفیر سے بات کی جائے گی۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سائفر عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا، نکات شئیر نہیں ہوئے، چیرمین پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ سائفر کو لہرایا گیا، وزارتِ خارجہ کے مطابق سائفر ان کے پاس موجود ہے، مجھے با خدا معلوم نہیں تھا کہ چیرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں گرفتار ہیں، عطاتارڑ نے ٹیلیویژن پر بیٹھ کر کہا چیرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، عجیب بات یے، سائفر کیس میں عطاتارڑ کو چیئرمین پی ٹی آئی کا معلوم ہے، پی ٹی آئی وکلاء کو نہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تاحال چیئرمین پی ٹی آئی سے سائفر کیس میں کچھ برآمد نہیں ہوا، کمیٹی متفقہ طور پر فیصلہ کرتی ہے کہ سائفر کے نکات کیا ہیں، کابینہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرتی ہے، کابینہ کے منٹس ریکارڈ پر موجود ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں سپریم کورٹ میں سائفر کیس زیر بحث آیا، سپریم کورٹ نے تو نہیں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفرکیس درج کیا جائے۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کیس چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا کیس تو بنتا ہی نہیں، سائفر اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس نہیں، پراسیکیوشن کو کیسے معلوم ہوا کہ سائفر اصلی تھا، اصلی سائفر لائیں، چیرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی تعلیم یافتہ افراد ہیں، بیرون ملک سے پڑھے ہوئے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے