باپ اور بیٹے کے مختلف بیانات نے پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے،حافظ حسین احمد
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سینئر رہنما و سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ زرداری کا بیان ”اُن“ کی خوشنودی جبکہ بلاول کا بیان عوام کو متاثر کرنے کے لیے ہے، زرداری کے مفاہمانہ پالیسی پر بلاول کا مزاحمتی بیان سیاسی بلوغت کی جانب سے قدم ہے، پیپلز پارٹی میں اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کا بیانیہ حاوی ہوچکا ہے، سب پر بھاری رہنے والے زرداری پر ایک بلاول بھاری ثابت ہورہے ہیں۔ اتوار کے روز اپنی رہائشگاہ جامعہ مطلع العلوم میں مختلف وفود اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کے التوا کے حوالے سے آصف زرداری کا مفاہمانہ جبکہ بلاول کا مزاحمتی بیانیہ سے سیاسی موروثیت کو دھچکا لگ سکتا ہے، بلاول کازرداری کے بیانیہ کے خلاف بیانیہ ان کی سیاسی بلوغت کی شروعات لگتا ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے سیاسی بیانیہ کو خاندانی بیانیہ پر ترجیح دی ہے جس کے مستقبل میں دور رس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہ کہ باپ اور بیٹے کے مختلف بیانات نے پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ بیک وقت وہ باپ اور بیٹے کی ترجمانی کس طرح کریں البتہ بلاول کا یہ کہنا کہ وہ گھریلو معاملات میں زرداری جبکہ سیاسی معاملات میں پارٹی فیصلوں کے پابند ہیں ناقابل فہم ہے کیوں کہ اس وقت سیاسی جماعتیں خاندانی اور گھریلو پارٹیاں بن چکی ہیں۔ ایک سوال کہ”پیپلز پارٹی میں باپ کی یا بیٹے کی پالیسی چلے گی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تو باپ کی چلی تھی اب سندھ میں بیٹے کی چلے گی، انہوں کہا کہ 2018ء سے لیکر اب تک زرداری نے پوری پی ڈی ایم کو اپنے مفاہمانہ ڈگر پر ڈال دیا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے پیپلز پارٹی اب خود اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کے بیانیہ پر چل پڑی ہے اور اسی بیانیہ کے تحت بلاول بھٹو زرداری نے 90روز کے اندر الیکشن کا مطالبہ کردیا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے مطالبات کو جے یو آئی کے موقف پر اس لیے ترجیح دی تاکہ اپوزیشن اتحاد برقرار رہ سکے۔