لیبیا میں شدید احتجاج، اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کرنیوالی وزیر خارجہ عہدے سے فارغ

طرابلس: لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ نے اسرائیلی ہم منصب سے غیر رسمی ملاقات کرنے والی وزیر خارجہ نگلہ المنقوش کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ لیبیا فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی خبر عام ہونے کے بعد عربوں کی اکثریتی آبادی والے ملک لیبیا میں احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لی کوہن نے کہا ہے کہ لیبیا کی ہم منصب نگلہ المنقوش سے ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے قیام کی جانب ایک تاریخی قدم تھا۔

اسرائیل کچھ عرصے سے عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اسے بطور ملک تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم لیبیا کے تین صوبوں کی نمائندگی کرنے والی صدارتی کونسل نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا غیر قانونی ہے۔

لیبیا کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے دفتر نے نگلہ المنقوش پر غداری کا الزام لگایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی جانب قدم اٹھایا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایسی ملاقات کا اعلان حیران کن تھا کیونکہ اس کے لیبیا کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔

لیبیا اسرائیل کا سخت مخالف اور فلسطینیوں کی جدوجہد کا حامی رہا ہے، خاص طور پر جب معمر قذافی لیبیا کے رہنما تھے۔ قذافی کے دور میں ہزاروں یہودیوں کو لیبیا سے نکال کر ان کی کئی عبادت گاہیں تباہ کر دی گئی تھیں خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ لیبیا میں ہونے والی ملاقات کے لیے رضامندی انتہائی اعلیٰ سطح پر دی گئی تھی۔ یہ بات چیت ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں، کوہن نے کہا کہ لیبیا کی وزیر خارجہ نے ان سے روم میں ملاقات کی تھی۔

کوہن نے کہا کہ لیبیا میں زراعت، پانی کے انتظام اور یہودی ورثے کے تحفظ جیسے موضوعات پر بات ہوئی۔ اس دوران میں لیبیا میں یہودی قبرستانوں اور عبادت گاہوں کی حالت بہتر بنانے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا لیکن لیبیا کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے نمائندے سے اپنے وزیر خارجہ کی ملاقات کے نکتے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹلی میں جو کچھ ہوا ہے وہ ‘غیر رسمی اور فوری ملاقات’ تھی۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ملاقات کے دوران کسی قسم کی کوئی بات چیت، معاہدہ یا مشاورت نہیں ہوئی اور وزارت خارجہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔

اس ملاقات کی خبر کے بعد شروع ہونے والا احتجاج دارالحکومت طرابلس کے علاوہ کئی دوسرے شہروں تک پھیل گیا ہے۔ کئی مقامات پر سڑکوں پر ٹائر جلائے گئے اور مظاہرین کو فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا گیا۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ لیبیا برسوں سے انتشار کا شکار ہے۔ ملک کے مشرقی اور مغربی حصے میں دو الگ الگ عبوری حکومتیں ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر پہچان حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سیاسی تقسیم کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ بہت پیچیدہ ہونے والا ہے۔

لیبیا کی نیشنل آرمی کے جنرل خلیفہ حفتر لیبیا کے مشرقی حصے کے شہر تبروک سے حکومت چلا رہے ہیں۔ پورا مشرقی لیبیا اس حکومت کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے عرب لیگ کے ممالک کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنا شروع کیے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ اسرائیل کی دشمنی دہائیوں پرانی ہے۔

2020 ء سے اسرائیل نے امریکا کی پہل پر متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔ ان معاہدوں کو “ابراہم ایکارڈز” کا نام دیا گیا ہے۔ فلسطینیوں نے ان معاہدوں پر دستخط کرنے والے عرب ممالک کو بھی غدار قرار دیا ہے۔ اتوار کی شام لیبیا کے صدر کی کونسل نے حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر وضاحت کا مطالبہ کیا۔ لیبیا کی فوج اس کونسل کے کنٹرول میں ہے۔

کونسل نے حکومت کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ‘دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کسی بھی طرح لیبیا کی خارجہ پالیسی کی عکاسی نہیں کرتی۔ ایسا کوئی بھی اقدام لیبیا کے قانون کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی جرم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے