جمعیت علماء اسلام ہی ملک کی اسلامی شناخت کی ریڈ لائن ہے، مولانا عبد الرحمن رفیق

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبد الرحمن رفیق سینئر نائب امیر مولانا خورشید احمد جنرل سیکریٹری حاجی بشیر احمد کاکڑ مولانا محمد ہاشم خیشکی مولانا محمد اشرف جان مفتی غلام نبی محمدی مفتی عبد السلام رئیسانی حافظ مسعود احمد حافظ شبیر احمد مدنی مفتی عبد الغفور مدنی حاجی ولی محمدبڑیچ حاجی ظفر اللہ خان کاکڑ حافظ سراج الدین حافظ مجیب الرحمٰن ملاخیل حاجی صالح محمد حاجی قاسم خان خلجی مفتی محمد ابوبکر حافظ رحمان گل مولانا جمال الدین حقانی مفتی نیک محمد فاروقی اور دیگر نے کہا کہ جمعیت ہی ملک کی اسلامی شناخت کی ریڈ لائن ہے، آئندہ انتخابات میں قوم بیرونی ایجنٹوں کو مسترد کرے گی، روشن اور اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے مرتے دم تک جدوجہد جاری رہے گی۔ہمارے اکابرین کی قربانیوں کی بدولت خطہ کو آزادی ملی، اسلامیان برصغیر نے پاکستان بڑی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ اس جدوجہد میں علماء اور صلحاء کی قیادت میں نوجوانوں نے اپنی شہ رگوں کا گرم لہو پیش کیا خمیدہ کمر بوڑھوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو اسلام کی آن پر قربان کر دیا اور عفت مآ ب دختر ان اسلام کی عصمتوں پر ڈاکے ڈالے گئے۔قربانیوں کی لا زوال داستانیں رقم کرنے کے بعد انگریزوں سے آزادی نصیب ہوئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ لیکن بد قسمتی سے قوم کی روایتی فکری لغزشوں اور نا اہلیوں نے آزدای کے اس دن کو پہلے سے زیادہ بد ترین غلامی کا نقطہ آغاز بنا دیا۔ جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کے رہنماؤں نے کہا پاکستان جس نظرئیے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اسے بالکل فراموش کیا جا چکا ہے۔ آج پاکستان کے مسلمان ایسی نادیدہ غلامی میں جکڑے جا چکے ہیں جس کا انہیں احساس بھی نہیں ہے۔ جس طرح کسی بدعت کے کرنے والے کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی چونکہ اسکے نزدیک یہ عمل گناہ نہیں بلکہ کار ثواب ہو تا ہے بعینہ اس طرح غیر محسوس انداز میں غلامی کرنے والوں میں اس لعنت سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا جذبہ پیدا نہیں ہو تا کیونکہ انکے نزدیک ہم غلام نہیں بلکہ آزاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد باگ ڈور جن ہاتھوں میں آئی ان نا عاقبت اندیش اور امریکہ نواز قیادتوں نے پاکستان کے وسائل کو جی بھر کے لوٹنے کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے والوں نے اگر کوئی کام کیا تو صرف ملک میں نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ہی کھڑی کیں، جمعیت علماء اسلام جیسی محسن جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، اسلام سے انحراف کی سزا قیام پاکستان کے 24 سال بعد ہی اس انداز میں ملی کہ ملک دولخت ہو گیا اور ہمارا مشرقی بازو جارحیت کے ذریعے علیحدہ کر دیا اور وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے باوجود نئی سازشیں شروع ہونے لگیں اور مشرقی پاکستان کو بھول جانے کو کہا گیا تاکہ ہم بدلہ لینے کی بجائے ہندوؤں کی غلامی کو قبول کر لیں۔ رہنماوں نے کہا کشمیر کا مسئلہ جو قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے76 برس گزرنے کے باوجود اسکا کوئی حل نہ نکالا گیا بلکہ عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر کشمیر کا سودا کیا۔ انہوں نے کہا کہ چھہتر سال گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح محض اٹھائیس فیصد ہے۔ مقررین نے کہاانگریز ملک چھوڑ گئے لیکن ان کا تیار کردہ نظام جوں کا توں موجود ہے کوئی بھی شعبہ ہو معمولی ترامیم کے ساتھ محض چہرے بدل گئے ہیں۔ انگریز کے چھوڑے ہوئے نظام تعلیم میں تو اب تک بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ کچھ اگر اس میں ہماری ثقافت یا دینی نصاب تھے وہ سب ختم کیے جارہے ہیں۔ بلکہ انگریز کے دور میں تعلیمی نظام کا ایک معیار تھا۔ اس وقت کا میٹرک پاس بھی آج کے بی اے، ایم اے کرنے والے سے زیادہ قابلیت رکھتا تھا لیکن موجودہ تعلیمی نظام دینی اعتبار سے بالکل خالی تو ہے ہی مگر عصری اعتبار سے بھی جو ہر قابل پیدا کرنے میں ناکام ہے۔انہوں نے کہا تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے وہ صنعتی لحاظ سے بالکل پسماندہ تھے اکا د کا ملیں اور چھوٹے کارخانے تھے۔ زیادہ تر معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ اگر ابتداء سے حکمران زیادہ توجہ ملکی استحکام کی طرف دیتے تو یقینی طور پر صنعتی ترقی کی راہ ہموار کر تے کیونکہ جدید دور میں کوئی بھی ملک محض زراعت کے بل پر معاشی خوشحالی نہیں خریدسکتا۔ انگریز کا چھوڑا ہوا سیاسی نظام بگڑی ہوئی شکل میں آج بھی رائج ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پر مغربی نظام کس طرح لاگو کیا جا سکتا ہے؟ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک پر وڈیروں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباؤو اجداد ذاتی مفادات کے لیے انگریز کے ہاتھوں استعمال ہو تے رہے اور اپنے آقاؤں سے وفاداریوں کے عوض بڑی بڑی جاگیریں وصول کر تے رہے اور اب تو ہمارے ہمارے ملک پر مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے عمران خان جیسے ناتجربہ کار جذباتی افراد کو مسلط کیا گیا، جس کی وجہ آک ملک کئی سال پیچھے چلاگیا ہے، جس کی سزائیں ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے