عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی اور ضمانت کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے سلمان اکرم راجہ، لطیف کھوسہ، بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، شعیب شاہین سمیت دو درجن سے زائد وکلا جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے امجد پرویز و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ خواجہ حارث کی غیر موجودگی میں مجھے دلائل دینے کا کہا گیا۔ عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر ہمیں ملا ہے اس میں آج کی کارروائی کا کہا ہے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیشن جج نے اس عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا تھا، ٹرائل کورٹ نے میرے موکل کو 3 سال کی سزا سنائی ہےچیرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سیشن کورٹ ڈائرکٹ کمپلینٹ کو نہیں سن سکتی، الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دیتا ہے، چیئرمین الیکشن کمیشن اور چار ممبران کمیشن ہی شکایت دائر کرنے کا مجاز ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ میرے موکل کے خلاف شکایت سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دائر کی ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن کو شکایت فائل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، سزا معطلی کے تین گراؤنڈز ہیں، ایک تو شارٹ سینٹینس ہے، دوسرا کیس کے عدالتی اختیار کا معاملہ ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سیشن عدالت براہ راست الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی، عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے نمٹایا جانا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن کی تعریف کے مطابق الیکشن کمشن چیف اور ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی ملازم کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے وکیل لطیف کھوسہ نے مختلف قوانین کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں کمیشن کی جانب سے کوئی authorization نہیں ہے، یہ کیس سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے authorize کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے authorization پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کے دستخط ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ delegation اور authorization قانون کے مطابق نہیں، جس پر وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ سیشن عدالت نے دائرہ اختیار اور authorization کے معاملے پر فیصلہ کیے بغیر سزا سنا دی، میں اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈرز کا حوالہ دیتا ہوں، ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ موجود نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے۔ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھیجی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے،ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھیجی، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام ملا، 5 اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغواء کیا گیا، خواجہ حارث کا بیانِ حلفی موجود ہے، خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی، ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ درست فورم پر دائر نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی، ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرتے ہوئے اٹھائے گئے سوالات کا بھی جواب دے۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں لگے اے سی کام کرنا چھوڑ گئے جس کے بعد کمرے میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے باعث حبس اور گرمی ہوگئی۔ وکیل سردار لطیف کھوسہ نے ججز سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو شاید تھوڑی بہت ہوا آ رہی ہو، ہمیں تو بالکل نہیں آ رہی۔ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اے سی کے وینٹ کے سامنے نا کھڑے ہوں تاکہ ہوا نا رکے، لطیف کھوسہ صاحب کو پانی پلائیں۔ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے میں خرابیاں ہی کافی ہیں کہ اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کرلئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو 5 اگست کو سزا سنائی گئی، 8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے حق دفاع ختم کرنے کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے تھے، انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ ڈویژن بینچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے۔ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ 9 اگست 2023 کو اس کیس کا نوٹس ہوا تھا، سزا معطلی ضمانت سمیت بہت سارے چیزیں انہوں نے بتائی، حق دفاع، درخواست قابل سماعت و دیگر بہت سارے معاملات سنگل بینچ کے سامنے زیر سماعت ہیں، سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں فیصلے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالتی دائر اختیار، حق دفاع سمیت بہت ساری چیزیں زیر بحث ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں سنا گیا، گراؤنڈز ان کے پاس ہر حال میں رہیں گے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ملزم 342 کے بیان میں کہتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے مانا کہ پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کر دیا اب دفاع میں گواہ پیش کرنے چاہیئں، الیکشن کمیشن کے فارم بی پر تحریری کرنے کیلئے معلومات تو ملزم نے خود دینا ہوتی ہیں، اکاؤنٹینٹ، ٹیکس کنسلٹینیٹ نے خود سے تو معلومات پر نہیں کرنا ہوتیں، یہ مس ڈیکلیریشن کا کیس ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے خلیفہ راشد دوم حضرت عمر رضی اللہ انہہ کا حوالہ دیا اور کہا کہ حضرت عمرؓ نے قرار دیا کہ ارباب اختیار کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں، میں نے عدالت سے تیاری کے لیے دو ہفتوں کا وقت مانگا تھا، مگر ایک دن کا وقت ملا، انکی جانب سے 6 پیچیدہ سوالات اٹھائے گئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 6 سوالات تو نہیں ہیں، ابھی تو تین ہی سوالات ہیں جن کا آپ نے جواب دینا ہے۔ وکیل امجد پرویز نے ایک بار پھر عدالت سے وقت دینے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جس طرح کھوسہ صاحب اور گوہر صاحب نے ادھر ادھر سے چیزیں لیکر دلائل دئیے، آپ بھی اسی طرح ادھر ادھر سے چیزیں لیکر دلائل دیں۔ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا کلائنٹ ہی بتاتا ہے، انہوں نے گوشواروں میں چار بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اگر چہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے۔ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نوٹس جاری کر دیا جائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے، حکومت کو نوٹس جاری کر دیئے جائیں تو حکومت آ کر کیا کرے گی؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملزم تو حکومت کی تحویل میں ہے نہ، یہ قانون کا تقاضا ہے، قانون آپ کے سامنے ہے، سادہ زبان ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے وکیل امجد پرویز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جن کیسز کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں ایف آئی آر کے تحت ٹرائل ہوا، اس کیس میں ٹرائل سے پہلے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس بنیاد پر اپیل خارج کر دی جائے، میں کہہ رہا ہوں کہ ریاست کو نوٹس جاری کر دیا جائے۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ جس کیس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اُس میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی، اس کیس میں کوئی ایف آئی آر موجود نہیں ہے۔ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ قانون کی متعلقہ دونوں شقیں کہتی ہیں کہ ریاست کو نوٹس جاری کیا جانا ہے، سزا کے خلاف اپیل پر ریاست کو نوٹس ضروری ہے، ریاست کے پاس فیصلے کے دفاع کا حق موجود ہے، ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ فیصلے کا دفاع کرے گی یا نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ ریاست آ کر کہے گی کہ سزا غلط دی گئی؟ یہ مختصر سزا ہے اور یہ بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے کہ بغیر نوٹس سزا معطل ہوئی ہو اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔