جڑانوالہ واقعہ مذہب، قانون او ر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، سینیٹر ثمینہ زہری

کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں سب سے خطرناک عمل جو کہ ہمارے معاشرے کو آگ کی طرح کھاتا جارہا ہے وہ ہے ”عدم برداشت اور انتہا پسندی“۔گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ مذہب، قانون اور رسم و رواج کے سراسر منافی ہے جس میں عیسائی برادری کے گھروں اور اور ان کے مقدس چرچ جلائے گئے۔اس افسوسناک کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے اپنے اخباری بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی و جمہوری ملک ہے جہاں ہر مذہب ہو مکمل آزادی حاصل ہے اور چند ذہنی معذورلوگوں کی گھناؤنی حرکت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان میں اقلیتیوں کو مکمل آزادی حاصل نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا معاشرہ مسلسل اور تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے تو شاید اکثریت ہماری اس بات سے اتفاق کرے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے عوامل تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کو تیزی سے تنزلی کی طرف لے جارہے ہیں، ان میں سب سے بڑا عنصر عدم برداشت اور انتہا پسندی ہے۔ اس ناسور نے کتنے ہی ہنستے بستے گھر اجاڑ دیئے ہیں۔ آئے روز عدم برداشت اور انتہا پسندی کے واقعات ایسے متواتر رونما ہو رہے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میں خاطر خواہ کمی اور روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں پیش آنے والا واقعہ نہایت افسوس ناک اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی مکمل غیر جانبداری کے ساتھ تحقیقات کی جانی چاہئیں اور جو بھی اس گھناؤنے عمل میں ملوث پایا جائے اسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی روک تھام کے لئے کوئی موثر اقدامات نہیں کئے گئے اوریہی وجہ ہے کہ آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ہم سب مل کر عدم برداشت اور عدم تحمل کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔ سب سے بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنی ذات سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ اپنی ذات سے شروع کرے۔ جہاں تک علمائے کرام اور مذہبی شخصیات کا تعلق ہے تو ان پر سب سے زیادہ ذمہ داری اس لئے بھی عائد ہوتی ہے کہ دین اسلام کی ترویج کرنا اورنبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا ان کا فریضہ ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔گلی محلے کی مسجد کا مولوی ہو یا ملک کی نامور یونیورسٹی کا پروفیسر، سیاستدان ہو یا صحافی، وکیل ہو یا سرکاری ملازم، ڈاکٹر یا کوئی عام آدمی، تحمل اور برداشت کی ترویج میں ہم سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تب ہی معاشرے میں تبدیلی آئے گی کیونکہ اگر ہم نے اپنے آنے والی نسلوں کو عدم برداشت اور انتہا پسندی جیسے ناسور سے بچانا ہے تو ہمیں درسی نصاب میں بھی اس موضوع پر مشتمل مضامین شامل کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو اس ناسور سے بچانا ہو گا، ان کی تربیت کرنی ہو گی۔اپنی بات سے اختلاف رائے رکھنے والے کا احترام اور دوسرے کی بات کو تحمل و برداشت سے سننے کا حوصلہ رکھنا اور بڑھانا ہوگا۔ا سکول سے لے کر یونیورسٹی اور مدرسوں سے لے کر مسجدوں تک غرض ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور اداروں سب کو اپنا اپنا مثبت اور بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ہماری آنے والی نسلوں کو پیار و محبت، بھائی چارے اور امن و آشتی سے مزین خوبصورت معاشرہ میسر آ سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے