90 روز میں انتخابات کرانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) عام انتخابات 90 روز میں کرانے اور نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری کا مشترکہ مفادات کونسل کا نوٹیفیکیشن معطل کرانے کیلئے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔درخواست سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے خلاف دائر کی ہے. سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہر صورت 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا جائے.
سپریم کورٹ بار کی جانب سے دائرہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ وہ 90 روز میں عام انتخابات کا انعقاد کرائے.سپریم کورٹ بار نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ کی مشترکہ مفادات کونسل اجلاس میں شرکت کو غیر قانونی قرار دیا جائے،قومی اسمبلی کی تحلیل سے ایک ہفتہ قبل مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری لینے کا مقصد انتخابات میں تاخیر کرنا ہے،نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری کا مشترکہ مفادات کونسل کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے.
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل پر نوے دنوں میں انتخابات کروانا آئین کا بنیادی جز ہے جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں تاخیر آئین کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے.درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ 90 روز میں الیکشن کروانے کے آئینی تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہے،دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدر مملکت از سر نو مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل ہی نہیں کر سکتے ہیں،نگران حکومتوں کا کام آئین و قانون کے مطابق الیکشن کروانا ہے،
سپریم کورٹ بار نے کہا کہ نگران وزرائے اعلیٰ منتخب وزرائے اعلیٰ کی طرح اپنے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کے اہل ہی نہیں تھے،الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے تحت دوبارہ حلقہ بندیوں کا عمل شروع نہیں کر سکتا ہے،نوے روز گزرنے کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی حیثیت ہی غیر قانونی ہے، نئی مردم شماری نوٹیفائی کرنے کا مقصد الیکشن التواء کے سوا کچھ نہیں.
درخواست میں مزید کہا گیا سیکرٹری الیکشن کمیشن یہ بیان دے چکے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں پر چار ماہ لگ جائیں گے اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد کم از کم 54 روز کا الیکشن پروگرام جاری کریں گے،سابق وزیر قانون اعظم بھی اس سے ملتا جلتا بیان دے چکے ہیں.