اسلام آباد والے بلوچستانیوں کو انسان نہیں سمجھتے صوبے کی 75لاکھ آبادی پر کٹوتی لگادی گئی، میر اسد اللہ بلوچ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کے مرکزی صدر راجی راہشون صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہاہے کہ جہاں جمہوریت کمزور ہوں توعوام محرومی کے شکار ہونگے،اسلام آباد والے بلوچستانیوں کو انسان نہیں سمجھتے صوبے کی 75لاکھ آبادی پر کٹوتی لگادی گئی،ہماری ثقافت،رسم ورواج اور تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ ظلم نہ صرف بلوچ بلکہ پشتونوں،ہزارہ اور یہاں آباد سیٹلرز پر کیاجارہاہے،ہم سب کو بلوچستانی بن کر سوچنا چاہیے ان خیالات کااظہار انہوں نے محکمہ زراعت میں لواحقین کوٹے پر بھرتی ہونے والے 5سو بے روزگاروں آرڈر تقسیم کرنے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ سرکاری ملازمین کی محکمے کیلئے بڑی قربانیاں ہیں یہاں کی ہر شے مجھے عزیز ہے چاہے وہ لوگ ہوں یا پہاڑ،انہوں نے کہاکہ کوشش ہے کہ صوبے کے کونے کونے میں بیٹھے ہرشخص کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جائیں یہاں بدقسمتی سے جمہوری نظام بیمار ہے اور جب جمہوریت بیمارہوں توپھر لوگ محرومی کے شکار ہوں گے،جو لوگ آرڈر لیکر نوکری حاصل کرینگے وہ محنت اور لگن کے ذریعے محکمہ کی بہتری کے ساتھ عوام کی بہتری کیلئے کام کرے،انہوں نے کہاکہ ملک بھر میں ڈیجیٹل نظام کے ذریعے مردم شماری کی گئی تمام سیاسی جماعتوں،دانشوروں،وکلاء ودیگر نے بڑی محنت کی اور ماضی کی نسبت مردم شماری کے حوالے سے مثبت نتائج ملے لیکن بدقسمتی سے مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس ہوا جہاں پر75لاکھ کی آبادی کی کٹوتی ہوئی ہے یہ کٹوٹی پنجاب،سندھ اور خیبرپشتونخو اکی نہیں بلکہ بلوچستان کی آبادی کی ہوئی ہے ہمیں انسان ہی نہیں سمجھاجارہا،ہماری ثقافت،رسم ورواج اور تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ ظلم نہ صرف بلوچ بلکہ پشتونوں،ہزارہ اور یہاں آباد سیٹلرز پر کیاجارہاہے،ہم سب کو بلوچستانی بن کر سوچنا چاہیے میری خواہش ہے کہ بلوچستان کے لوگ پی ایچ ڈی کرکے بڑے بڑے پوسٹوں پر پہنچے لیکن ہم آپس میں لڑ رہے ہیں،ہمیں بلوچستانی بن کر سوچناچاہیے۔گوادرائیرپورٹ کانام تبدیل کرکے ایسے شخص کے نام پررکھاجارہاہے جن کو بلوچستان کے لوگ جانتے بھی نہیں،بلوچستان کے اپنے ہیروز ہیں لیکن اسلام آباد والے بلوچستانیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے،گوادر یونیورسٹی لاہور پنجاب میں تعمیر ہورہاہے میں ایک سیاسی شخص ہوں میرا اپنا وژن ہے یہاں لوگ اپنا سوچتے ہیں لیکن میں صوبے کا سوچتا ہوں میں نے پہلے پہل یتیموں کا آرڈر کیا اس کے بعد دیگرآرڈرز ہونگے۔ہمیں غریب خاندانوں کااحساس ہے ہم نے عملی طورپر کام کرنے پریقین کیاہے اور آئندہ بھی عملی طورپر کام کرتے رہیں گے۔اگر عدالتیں اسٹے پر اسٹے نہ دیتا تو بہت پہلے ہی یہ معاملات ختم ہوجاتی۔جن لوگوں کو آرڈر مل رہے ہیں ان سے اپیل ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کو حلال کرتے ہوئے بھرپور ڈیوٹی کریں تاکہ رزق حلال کمایاجاسکے،بلوچستان میں غربت کی شرح 50لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں یہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کیلئے نئی راہیں تلاش کریں۔یہاں لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں 40ہزار ملازمتیں دینی تھی لیکن یہاں سیاسی معاملات ویونین بازی ودیگر کی وجہ سے ملازمتیں دینے میں ہم ناکام ہوئے،سماج کو بگاڑنے کیلئے ایک منفی سوچ کافی ہوتی ہے۔ہم نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کوپس پشت ڈالر کر بلوچستان،اس دھرتی،پسے ہوئے طبقات کو ترجیح دی ہے۔