بی این پی نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی

بی این پی نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں سے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دیکوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان نیشنل پارٹی نے مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے ملک میں کی جانے والی ساتویں مردم شماری کے نتائج کی منظور ی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کی آبادی کو دانستہ طور پر کم کر کے عوام کو ایک بار پھر ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے،بی این پی مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے مشترکہ لائحہ مرتب کریں،بی این پی اپنے لائحہ عمل کا اعلان آج کریگی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان کے مطابق بی این پی کی سینٹرل کمیٹی کا دو روزہ اجلاس ہفتہ کو ہزار گنجی کوئٹہ میں بی این پی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل کی زیر شرو ع ہوا۔اجلاس کے پہلے روز مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے ساتویں مردم شماری کے نتائج کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے منظور اور جاری کئے گئے مردم شماری کے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے کیا۔ پارٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کے نتائج بلوچستان میں گزشتہ 75سال سے جاری استحصال، بے انصافی، محرومیوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کی ایک اور کڑی ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ ادارہ شماریات نے مئی میں مردم شماری مکمل ہونے کے بعد جو نتائج جاری کئے تھے ان میں بلوچستان کی آبادی 2کروڑ 47لاکھ ظاہر کی گئی تھی لیکن اب صوبے کی آبادی کو کم کر کے 1کروڑ 48لاکھ کردیا گیا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔بیان میں کہاگیا ہے کہ بلوچستان کے عوام نے ساتویں مردم شمار ی میں اس لئے حصہ لیا تھا کیونکہ بی این پی سمیت تمام جماعتوں نے عوام میں باقاعدہ طور پر اور سوشل میڈیاکے ذریعے آگاہی مہم چلائی تھی کہ لوگ ڈیجیٹل مردم شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ملک میں وسائل، روزگار کے مواقعوں، اسمبلیوں میں نمائندگی،تعلیم سمیت دیگر اہم معاملات میں تقسیم جو آبادی کی بنیا د پر کی جاتی ہے میں بلوچستان کو بھی نمائندگی حاصل ہو اور صوبے کو اسکا جائز حق مل سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام نے اس لئے بھی مردم شماری میں حصہ لیا کیونکہ اس بار مردم شماری سیکورٹی حصار کے بجائے سرکاری استاتذہ کے ذریعے کروائی گئی عوام نے بلاخوف و خطر اور ہچکھچاہٹ کے اپنا اندراج کروایا جس سے بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ہوا اور صوبے کی حقیقی آبادی معلو م ہوئی ساتھ ہی 2017میں شورش سمیت دیگر وجوہات کی بناء پر بہت سے لوگ صوبے سے نقل مکانی کر گئے تھے انکی بھی واپسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آباد ی میں اضافہ نظر آیا لیکن بلوچستان کی حقیقی آبادی کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک بار پھر صوبے کے ساتھ ظلم و ذیادتی کرتے ہوئے مردم شماری کے منظورشدھ جاری کردہ نتائج میں صوبے کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے بی این پی ان اعداد و شمار کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتی ہم صرف ان نتائج کو تسلیم کر یں گے جو مئی 2023میں جاری کئے گئے تھے جن میں بلوچستان کی آبادی 2کروڑ 47لاکھ تھی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سی سی آئی کے فیصلوں سے بلوچستان کی اہمیت،سیاسی حیثیت بر ی طرح متاثر ہوگی عوام نے ا س مردم شماری میں صرف اس لئے حصہ لیا تھا کیونکہ ماضی کی نسبت اس مردم شماری میں سائنسی طریقے استعمال کئے گئے لیکن بیک جنبش قلم صوبے کی آبادی کے بڑے حصے کو ختم کردیاگیا ہے یہ اقدام بلوچستان کی تاریخی حقیقت کو مسترد کرنے کے مترادف ہے وفاق کی جانب سے پہلے بھی اس قسم کے اقدامات سے صوبے میں محرومیاں اور نفرتیں پیدا ہوئیں اب ایک بار پھر یہ اقدام صوبے میں محرومیوں اور نفرتوں میں اضافہ کا موجب بنے گا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بی این پی نے مردم شماری کے نتائج پر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کردی ہے جو سیاسی جماعتوں سے رابطے کریگی اور ایک مضبوط لائحہ طے کریگی جبکہ بی این پی مردم شماری کے حوالے سے اپنا آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان آج سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کے اختتام پر جاری
کریگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے