آئی ایم ایف معاہدے کے بعد ٹیکس ایمنسٹی کی گنجائش نہیں، اسحٰق ڈار

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے کووڈ-19 کے دروان چند کاروباری اداروں کو ٹیمپریری اکنامک ری فنانس فیسیلیٹی (ٹی ای آر ایف) کی سہولت کے تحت فراہم کیے گئے قرضوں کی شفافیت پر سوالات اٹھائے اور سستی فنانسنگ کے استعمال پر اسٹیٹ بینک کی کمزور نگرانی پر اظہارِ تشویش بھی کیا۔

گزشتہ سال وزیرِ خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اسحٰق ڈار قومی اسمبلی کی کمیٹی میں شریک ہوئے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس دہندگان کے ایک سے زیادہ غیر منقولہ اثاثوں کے ڈیمڈ رینٹل پر نیا ٹیکس لاگو کرتے وقت ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے تحفظات کو دور کریں۔

کمیٹی کے چیئرمین قیصر احمد شیخ نے کووڈ-19 کے دوران بڑے کاروباری اداروں کو 3 ارب ڈالرز سے زائد کے قرضوں کی فراہمی پر سوال اٹھایا اور حیرت کا اظہار کیا کہ ایسی سبسڈی والی اسکیمیں صرف امیروں کو ہی کیوں دستیاب تھیں اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے اس سے مستفید کیوں نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی جاننا چاہتی ہے کہ سبسڈی والے قرضوں کی اسکیم کے ذریعے کتنی فیکٹریاں لگائی گئیں اور صنعتی پیداوار میں کتنا اضافہ ہوا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے رپورٹ کیا کہ مجموعی طور پر 629 منصوبوں کے لیے قرضے فراہم کیے گئے تھے جن میں سے 469 مکمل طور پر آپریشنل، 89 جزوی طور پر آپریشنل، اور توقع ہے کہ بقیہ 62 جون 2025ء تک کام شروع کر دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ای آر ایف کے ذریعے تقریباً ایک لاکھ 94 ہزار 300 ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے اور آئندہ برسوں میں برآمدات اور امپورٹ سبسٹیٹیوشن کے ذریعے 11 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔شفافیت اور جواب طلب کرنے کے لیے ہنگامی طور پر بلائی گئی اس کمیٹی کے اراکین نے اسٹیٹ بینک سے منظوری کے طریقہ کار اور زیرِ بحث رعایتی قرضوں کی اسکیموں سے وابستہ اصولوں کے حوالے سے ایک جامع وضاحت بھی طلب کی۔

کمٹی نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ قرض کے ذریعے حاصل کیے گئے فنڈز کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیا جارہا ہے یا پھر مشینری کا کم استعمال کیا جارہا ہے، انہوں نے قرض کے استعمال کے حوالے سے بظاہر اسٹیٹ بینک کے کم فالو اپ پر اظہارِ تشویش کیا۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دیگر اسکیموں کی طرح رعایتی ری فنانسنگ کی منظوری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ 1956ء کی دفعات کے تحت دی گئی تھی، جیسے برآمدی اور غیر برآمدی منصوبوں کے لیے طویل مدتی مالیاتی سہولت (ایل ٹی ایف ایف) کے تحت رقم فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اسٹیٹ بینک نے قرض لینے والوں کو منتخب کرنے یا فنڈز کی تقسیم میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور مکمل خطرہ بینکوں یا ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئز) نے اٹھایا۔اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے کہا کہ ٹی ای آر ایف کے تحت فنانسنگ صرف نئے پلانٹس اور مشینری کی خریداری کے لیے تھی اور یہ خصوصی طور پر لیٹر آف کریڈٹ کے خلاف تھی۔

انہوں نے زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری صرف بینکوں اور ڈی ایف آئز پر ہے کہ فنڈز مطلوبہ مقاصد کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں یا نہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ نہ تو اسٹیٹ بینک اور نہ ہی حکومت رسک کوریج فراہم کررہے ہیں۔ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے ایک وفد نے کمیٹی کو بتایا کہ 2022ء میں ترمیم شدہ انکم ٹیکس قانون کے سیکشن 7 (ای)، اس سال لاگو ہونے کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر ٹھپ ہوگیا ہے اور ملک بھر میں جائیداد کی کوئی رجسٹری یا منتقلی نہیں ہورہی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس سیکشن کے مطابق ٹیکس دہندگان کے ذاتی استعمال کے لیے ایک فیصد کے علاوہ جائیدادوں اور اثاثوں کی قیمت پر ڈیمڈ رینٹل پر 1 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت ہے۔وفد نے مطالبہ کیا کہ یہ ٹیکس نان فائلرز کے لیے برقرار رکھا جاسکتا ہے لیکن فائلرز کے لیے اسے ختم کیا جائے کیونکہ وہ اپنی آمدنی پر 35 سے 36 فیصد ٹیکس پہلے ہی ادا کرچکے ہیں اور بچت کے ذریعے نئے اثاثے خرید چکے ہیں، لہٰذا ڈیمڈ رینٹل پر اضافی ٹیکس نے عملی طور پر اطلاق ہونے والے ٹیکس کی شرح کو 40 سے 45 فیصد تک بڑھا دیا۔

اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کو دوہرے خطرے کا سامنا تھا کیونکہ نئے ٹیکس سے عملی طور پر ان کے اثاثوں کی قیمتوں میں 30 سے40 فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ انہیں آمدنی پر اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کی آمدنی بھی زیادہ نہیں ہوتی۔وزیر خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ٹیکس چوروں اور نان فائلرز کو ٹیکس ایمنسٹی کی پیشکش نہیں کی جا سکتی، جبکہ ریئل اسٹیٹ کے نمائندے ایف بی آر کے ساتھ بیٹھیں اور دیکھیں کہ کوئی راستہ کیسے نکالا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے