ہمیں اپنے اداروں کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں،دانشوروں، صحافیوں نے کہا ہے کہ عبدالواحد بندیگ نے اپنی زندگی کے کم وبیش پینتیس برس بلوچی زبان، ادب و ثقافت کے فروغ کے لیے قربان کی،بلوچی زبان و ادب کی ترقی میں ان کی کاوشیں تاریخ کا حصہ ہیں، جنہیں کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا، ان خیالات کا اظہار مقررین نے بلوچی زبان کے معروف ادیب اور سابق چیئرمین بلوچی اکیڈیمی عبدالواحد بندیگ کی یاد میں بلوچی لبزانکی دیوان کوئٹہ اور کوئٹہ پریس کلب کے اشتراک سے منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ میں نے ہمیشہ عبدالواحدیگ کو ایک متحرک سیاسی و ادبی کارکن پایا، مادری زبانوں میں ماہنامہ تواتر سے شائع کرنا انتہائی مشکل کام ہے لیکن بندیگ نے یہ سلسلہ اخری دم تک جاری رکھا، اب ان کی مشن کو آگے بڑھنانے میں ان کے فرزندوں کے ساتھ ساتھ تمام نوجوان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی سرپرستی اور پذیرائی انتہائی ضروری ہے، انہوں نے کہا ہمیں اپنے شخصیات کو ان کی زندگیوں میں بھی خراج تحسین پیش کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے، انہوں نے کہا زبان و ادب کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں مواقع فراہم کیے جائیں اور تعلیم کو کونے کونے تک عام کرنا چاہیے، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچی زبان کے مایہ ناز ناول نگار و دانشور منیر احمد بادینی نے عبدالواحد بندیگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا ان کے ساتھ زیادہ قریبی تعلق رہا، انہوں نے میری تخلیقات کو ماہنامہ بلوچی میں متعارف کرانے میں ان کا بڑا کردار رہاہے، انہوں نے بلوچی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے تن تنہا اپنی جدوجہد جاری رکھا اور آخری دم تک بلوچی زبان او ادب کی خدمت میں مصروف رہے، انہوں نے بلوچی ڈکشنری اور کلیات میر گل خان نصیر مرتب کروایا جو ادب کے فروغ میں بڑی کامیابی ہیں۔ عبدالواحد بندیگ کے فرزند گواہرم بندیگ نے بلوچی لبزانکی دیوان اور کویٹہ پریس کلب کا تعزیتی ریفرنس منعقد کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے انہیں نصحیت کی تھی کہ ماہنامہ بلوچی کو جاری و ساری رکھنے کے لیے آخری دم تک اپنے جدوجہد جاری رکھیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند سینیر صحافی شہزادہ زوالفقار، جامعہ تربت کیپروفیسر ڈاکٹرعبدالصبور بلوچ، معروف محقق سلیم کرد، چیئرمین پشتو اکیڈیمی سہیل جعفر، چیئرمین بلوچی لبزانکی دیوان کویٹہ یارمحمد بادینی، پروفیسر بلوچ خان، ماہ نور بلوچ اوردیگر نے کہا کہ جناب بندیگ بارہ سال بطور چیئرمین بلوچی اکیڈیمی میں اپنے خدمات سرانجام دیئے اوربلوچی اکیڈیمی میں بے شمار ادبی سیمینار کے انعقاد کے علاوہ سیکنڈوں کتب کی اشعاعت کو یقینی بنایا جو بلوچی ادب کے فروغ میں بہترین اثاثہ شمار کیے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عبدالواحد بندیگ نے اپنے زندگی کے آخری ایام تک زبان و ادب کی ابیاری کے لیے اپنے مشن کو جاری رکھا جیسے اب ہم سب نے جاری و ساری رکھنا ہے تاکہ بلوچی زبان دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے صف میں کھڑا ہوسکے، مقرریں نے یارجان بادینی کے کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچی لبزانکی دیوان ہمیشہ بلوچی زبان کے ادیب، دانشور اور صحافیوں کی قیادت میں تقریبات منعقد کروانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔