بھارت میں تاریخی مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر؛عدالتی جانبداری بے نقاب

نئی دہلی: بھارتی شہر وارانسی میں قدیم گیانواپی مسجد کو مندر بنانے کے لیے کرائے جانے والے سروے کو رکوانے کے لیے مسجد کمیٹی کے مقدمے کی سماعت میں عدالتی جانبداری کھل کر سامنے آگئی۔بھارتی میڈیا کے مطابق الہٰ آباد ہائی کورٹ میں گیانواپی مسجد کے سروے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں مسجد کمیٹی کے وکلا نے دلائل دیے کہ آرکیالوجیکل سروے سے مسجد کے ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور تاریخی عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے۔مسجد کمیٹی کے وکلا نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ مسجد کے زیر زمین ایک مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ صرف خیالی باتوں پر کسی کو مسجد کے اندر کھدائی کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

جس پر مسجد کے اندر پوجا پاٹ کرنے کی اجازت لینے کا مقدمہ دائر کرنے والی ہندو خواتین کے وکیل نے کہا کہ مسجد کے زیر زمین مندر تھا یا نہیں یہی دیکھنے کے لیے آرکیالوجیکل سروے کا مطالبہ کیا تھا۔انتہا پسند ہندو جماعت کے وکیل نے کہا کہ ہمیں سروے پر پورا بھروسہ ہے جیسا کہ بابری مسجد کیس میں رام جنم بھومی کے لیے بھی کیا گیا تھا اور اس سے حقیقت سامنے آگئی تھی۔

جس پر مسجد کمیٹی کے وکیل نے جواب دیا کہ رام جنم بھومی تنازعہ کیس میں حالات مختلف تھے اور اس کا موازنہ گیانواپی مسجد سے نہیں کیا جا سکتا۔اس موقع پر انڈین آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کے نمائندے نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ سروے کے دوران مسجد کے ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ریڈار میپنگ کریں گے، صرف ضرورت پڑنے پر ہی مسجد کے اندر کھدائی کی جائے گی لیکن وہ آخری مرحلہ ہوگا۔

مسجد کمیٹی کے وکلا نے آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کی یقین دہانی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسجد سے ہندو دیوتاؤں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس لیے سروے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔عدالت کسی اور سے ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔ یہ غیر قانونی ہے۔جس پر عدالت نے کہا کہ اگر آپ کو آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کی یقین دہانی پر بھروسہ نہیں تو آپ عدالت پر کیسے بھروسہ کریں گے اور اس کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔

انتہا پسند ہندو جماعت کے وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے پاس مسجد میں دیوی دیوتاؤں کے ملنے کے ثبوت ہیں تاہم آرکیالوجیکل سروے کو ماہرانہ رائے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس پر مسجد کمیٹی کے وکیل نے کہا کہ اگر سروے کے دوران مسجد کے ڈھانچے کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار ہندو جماعت ہوگی جو سروے پر بضد ہے۔

خیال رہے کہ گیانواپی مسجد مشہور کاشی وشواناتھ مندر کے ساتھ 1000 برس سے تعمیر ہے۔ مندر اور مسجد آمنے سامنے ہیں لیکن ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ یہاں مسجد کی جگہ 1585 سے ایک اور مندر موجود تھا جسے 1669 میں راجہ توڈرمل کے حکم پر منہدم کر دیا گیا تھا۔گیانواپی مسجد کا معاملہ 2021 میں اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب ہندو خواتین کے ایک گروپ نے گیانواپی مسجد کے ایک حصے میں پوجا پاٹ کی اجازت کے لیے اتر پردیش کی عدالت سے رجوع کیا تھا۔

جس پر عدالت نے آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کو مسجد کے ویڈیو سروے کا حکم دیا تھا جس کے دوران ایک قدیم فوارہ دریافت ہوا تھا جسے انتہا پسند ہندوؤں نے شیولنگ قرار دیدیا تھا۔تاہم مسجد کی انتظامی کمیٹی نے کہا کہ یہ وضوخانہ (پول) میں ایک چشمے کا حصہ تھا جس میں نماز سے پہلے ہاتھ پاؤں دھوئے جاتے تھے تاہم انتہا پسند ہندو بضد رہے اور وضو خانے میں پوجا پاٹ کرنے کی کوشش کی۔

معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے وضو خانے کو سِیل کر دیا تھا اور ایک حصے میں پوجا پاٹ کی اجازت دیدی۔ جس پر مسجد کمیٹی کی درخواست کو الہٰ آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے