ملک میں الیکشن کرکے سیاستدان عوام کو کیا دیں گے، میراسراراللہ زہری

خضدار(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سربراہ سابق وفاقی وزیر و سینئر قوم پرست رہنماء میر اسرار اللہ خان زہری نے خضدار کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں الیکشن کرکے سیاستدان عوام کو کیا دیں گے کیا مہنگائی کم ہوگی ڈالر کی ریٹ نیچے آئیگا دال و چینی کی قیمت کم ہوگی سمگلرز سمگلنگ سے باز آجائیں گے جو دہندے ہورہے ہیں کرپشن کا بازار گرم ہے یہ ختم ہونگے اگر یہ چیز ختم نہیں ہونی ہے تو الیکشن کا کیا فائدہ ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں لاعلم ہوں وہ بند کمروں میں کچھ اور کہتے ہیں اور باہر پبلک کے سامنے ان کی گفتگو اور ہوتی ہے ان کا اپنا ایک طریقہ کار ہے اور ان کے اتحاد کی ایک وجہ ہے اور وہ ہے عمران خان جب تک عمران خان ہے ان کا اتحاد برقرار ہے جب عمران خان راستے سے ہٹ گئے تو ان کے اتحاد کا بھی وہ آخری دن ہوگا۔ الیکشن مقررہ مدت میں کرانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین پر اگر عملدرآمد ہوتا تو آج پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے الیکشن ہوتے ان کی اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہیں اب آئین پر عملدرآمد نہیں اس لیئے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوتا ہے چھ مہینے بعد ہوتا ہے سال بعد ہوتا نہیں ہوتا ہے ماورا آئین کام ہورہے ہیں آئین پر عملدرآمد ہوتا تو تجزیہ کرسکتے تھے کہ الیکشن کا یہ وقت ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلدیاتی الیکشن میں دونوں جانب سے اتحاد قائم تھا اس طرف کے ممبران دوسری جانب گئے دوسری طرف کے ممبران اس طرف آگئے میں سمجھتا ہوں اے ٹی ایم جیتا ہے ایک سوال کے جواب انہوں نے کہاکہ جب نمائندے یہاں سے سلیکٹ ہوکروہاں جاتے ہیں تو اربوں روپے کھینچ لاتے ہیں اور خرد برد کے لئے یہ رقم لیکر آتے ہیں منتخب نمائندوں کی یہ سوچ ہے کہ ان کے پاس اگر پیسہ ہوگا تو وہ دوبارہ جیت سکیں گے جو پوسٹس ہیں ان کو بھی کمائی کا ذریعہ بنایا ہے 8 لاکھ 10 لاکھ اور 14 لاکھ ان کی بولی ہے پبلک سروس کمیشن کے بارے میں بھی ایسا سنا تھا کچھ انجینئرز میرے پاس آئے تھے کہ 80 لاکھ روپے قیمت کی بات ہورہی ہے۔ پورے بلوچستان اور خاص کر خضدار میں بھی یہی صورتحال ہے کہ یہاں پبلک کی نمائندگی نہیں ہوتی ہے، پبلک کے لئے نمائندے سلیکٹ کیئے جاتے ہیں آپ کو اور مجھے پتہ ہے کہ 2018 اور 2013 الیکشن میں کیا ہوا پہلے کہتے تھے کہ پبلک ہمارے ساتھ ہے عوام ہمارے ساتھ ہے یہی گروہ اب خود آکر کہتے ہیں کہ دفتر ہمارے ساتھ ہے اب سمجھ نہیں آرہاہے کہ عوام سے رابطہ کریں یا کہیں اور رابطہ کریں یہ سیاست کے حصے بن چکے ہیں اب کیا کریں۔مکران میں جس طرح ہوا ہماری جماعت کے امیدوار نے 27 ہزار اٹھائے تھے دوسرے نے 6 سو اٹھائے تھے ہمارا والا ہار گیا کاغذوں میں رزلٹ چینج ہوگیا اب پی ایس ڈی پی اور ملازمتوں کا انتظار ہے جو موجودہ عوامی نمائندے ہیں ان سے چالیس سے پچاس فیصد عوام ٹوٹے گا۔ ان ان نمائندوں کی ایک امید ہے کہ جتنیپیسے کمائے ہیں ان کے بل بوتے پر الیکشن لڑیں گے تاہم پبلک ان کے ساتھ نہیں ہوگا۔ اس موقع پر پارٹی رہنماء ڈاکٹر مراد مینگل صدام بلوچ جنید مینگل عبدالحمید مردوئی ودیگر بھی موجود تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے