یونان کشتی سانحہ، وزیراعظم کی ملزمان کو سزا دلوانے کیلئےتجاویز مرتب کرنے کی ہدایت

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کشتی حادثہ کی تحقیقاتی کمیٹی کو کارروائی مکمل کرکے واقعے کی جلد رپورٹ پیش کرنے اور ذمہ داران کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم دیا ہے جب کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مزید 2 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا۔گزشتہ ہفتے یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن پر مشتمل کشتی ڈوب گئی تھی جن میں سے محض 104 افراد کو زندہ ریسکیو کیا جاسکا، سیکڑوں افراد تاحال لاپتا ہیں اور مزید لوگوں کو زندہ حالت میں ڈھونڈ نکالنے کے امکانات تقریباً صفر ہیں۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم کی زیرِ صدارت یونان کے قریب کشتی الٹنے کے واقعہ پر آج اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں وفاقی وزرا رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب، معاون خصوصی طارق فاطمی، ڈی جی ایف آئی اے، چیف سیکریٹری آزاد کشمیر و متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

وزیرِ اعظم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے وہاں کی انتظامیہ نے ملوث اسمگلروں اور ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیونکر نہ لیا؟انہوں نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو تحقیقات کی مکمل نگرانی کرنے اور ذمہ داران کو سزا دلوانے کے حوالے سے ضروری قانون سازی کے لیے تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے 12 جون کو کشتی کی نشاندہی کی جس میں ایک اندازے کے مطابق 700 کے قریب لوگ سوار تھے۔بریفنگ دی گئی کہ کشتی مصری شخص کی ملکیت تھی جس میں زیادہ تر سواروں کا تعلق شام، لیبیا اور پاکستان سے تھا، کشتی میں سوار لوگوں میں سے 102 لوگوں کو زندہ ریسکیو کیا جاچکا ہے جن میں سے 15 کا تعلق پاکستان سے ہے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ کشتی الٹنے کے بعد اس وقت تک مجموعی طور پر 15 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اس واقعے کا مرکزی ملزم بھی شامل ہے۔

وزیرِ اعظم نے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کو جلد مکمل کرنے اور ایف آئی اے کو اس کی روک تھام کے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔دوسری جانب ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گوجرانوالہ نے کارروائی کرتے ہوئے حادثہ میں ملوث 2 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیاترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزمان نے لیبیا کشتی حادثے کے متاثرہ کو یورپ بھجوانے کے لیے 25 لاکھ روپے ہتھیائے، متاثرہ عمیر یحیٰ لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے کشتی حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔

ترجمان ایف آئی اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملزمان کو گوجرانوالہ سے گرفتار کیا گیا، ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا، مزید تفتیش جاری ہے۔ادھر ایف آئی اے نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے کے متاثرین کی شناخت کے لیے ڈوبنے والی کشتی پر سوار افراد کے اہل خانہ کو طلب کرکے 98 لاپتا نوجوانوں کے خاندانوں کے ڈی این اے سیمپلز حاصل کر لیےحکام نے متاثرین کے والدین اور بچوں سے ڈی این اے کے نمونے دینے کی درخواست کی تھی تاکہ سمندر سے برآمد ہونے والی لاشوں کی شناخت کی جاسکے، اب تک 81 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 104 کو بچا لیا گیا ہے۔

ایف آئی اے گجرات سرکل میں 52 متاثرین کے لواحقین کی جانب سے سیمپل جمع کروائے گئے جب کہ گوجرانوالہ سرکل میں 46 متاثرہ خاندانوں کی جانب سے ڈی این اے سیمپلز دیے گئے۔گزشتہ روز متوفیوں کے قریبی رشتہ دار گجرات میں ایف آئی اے کے دفتر پہنچے، پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ٹیم نے ان کے نمونے اکٹھے کر لیے، ان کی رپورٹس یونان میں پاکستانی سفارتخانے کو بھیجی جائیں گی۔

مشتبہ تمام اسمگلرز کا تعلق مصر سے ہے اور ان کی عمریں 20 سے 40 سال کے درمیان ہیں، ملزمان کو منگل کے روز پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ان پر قتل عام، مجرمانہ تنظیم بنانے، تارکین وطن کی اسمگلنگ اور کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات شامل تھے۔سرکاری نشریاتی ادارے ’ای آر ٹی‘ کے مطابق تمام ملزمان نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کسی بھی غلط کام میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔

بحیرہ روم میں ڈوبنے والی کشتی مصر سے روانہ ہوئی، پھر 10 جون کو لیبیا کے ساحلی شہر توبروک میں مسافروں کو اٹھا کر اٹلی کے لیے روانہ ہوئی، یونانی حکام نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں نے دوران تفتیش انہیں بتایا کہ انہوں نے سفر کے لیے فی کس 45 ہزار ڈالر ادا کیے۔یونان کو 12 جون کو اپنی حدود میں کشتی کی موجودگی پر اٹلی کی جانب سے الرٹ جاری کیا گیا تھا، کشتی کے ڈوبنے سے قبل مرچنٹ ویسلز اس کی جانب بڑھی تھیں جبکہ یونانی کوسٹ گارڈ نے کئی گھنٹے تک اسے محاصرے میں لے رکھا تھا۔برسلز میں یورپی یونین نے تارکین وطن کے حوالے سے پالیسیوں کو بہتر کرنے کے لیے اپنے 27-2024 کے بجٹ میں 15 ارب یورو مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے