کوئٹہ شہر میں اب بھی قدیم زمانہ اور دوسری جنگ عظیم کے ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں، بلوچستان ہائی کورٹ

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل بینچ نے کوئٹہ پیکج کے حوالے سے دائر کیس کی سماعت کی گزشتہ روز کی سماعت میں کوئٹہ میں ٹریفک کے سنگین مسائل اور ان کے حل کے لئے اقدامات زیر بحث آئے معزز عدالت کی جانب سے ٹریفک کے مسائل جلد حل کرنے کے لئے کئی احکامات جاری کیے گئے معزز عدالت نے کہا کہ عدالت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پوری دنیا میں ایک مناسب طریقہ کار کے ذریعے پرانے ماڈل کی بسوں / گاڑیوں کو نئے ماڈل کی گاڑیوں / بسوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن کوئٹہ شہر میں اب بھی قدیم زمانہ اور دوسری جنگ عظیم کے ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں معزز عدالت کے مورخہ 10 مارچ 2021کو سی پی نمبر804/2020 کے حکم نامے میں عدالت پہلے ہی حکومت بلوچستان کو ٹریفک انجینئرنگ بیورو(TEB) کے قیام اور اس طرح دہائیوں پرانی بسوں / گاڑیوں کو تبدیل کرنے کا حکم دے چکی ہے اس لیے سیکرٹری ٹرانسپورٹ کی سربراہی میں پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر و پرائیویٹ سیکٹر میں پرانی گاڑیوں کی تبدیلی پر ایک جامع طریقہ کار مرتب کرنے کے لیے جو خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ تین ماہ کے اندر اندر اسائنمنٹ مکمل کریں گی تاہم اس ضمن میں پیش رفت رپورٹ اگلی سماعت یا اس سے قبل بھی جمع کرائی جا سکتی ہے عدالت کو ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سجاد حسین نے بتایا کہ TEB ایکٹ 2022 کے نفاذ کیبعد بیورو کا قیام ابتدائی مرحلے میں ہے اور مجاز حکام سے متعلقہ مسائل کے فوری حل کے لیے درکار768 ملین روپے کی ایک تجویز محکمہ پی اینڈ ڈی بلوچستان کو پیش کر دی گئی ہے اس تجویز میں پی ایس ڈی پی 2023- 24 میں 33 انٹرسیکشنز۔ فٹ پاتھ، مارکنگ،اشارے، سلیپ لین اور سگنل سٹاپ وغیرہ خصوصی طور پر شامل کیے گئے ہیں معزز عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور صوبہ بلوچستان کو بالعموم اور کوئٹہ شہر کو بالخصوص TEB کے قیام کی اشد ضرورت ہے اور کوئٹہ شہر کی روز بروز توسیع اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے یہ مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے لہذا محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان ابتدائی طور پر ٹی ای بی کے دفتر کے قیام کے لیے فنڈز کے اجرا کو یقینی بنائے اسی طرح ٹی ای بی کی فعالیت کے لیے تجاویز کو اگلی پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے درخواست گزار جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ اور ممبر پاکستان بار کونسل منیر احمد کاکڑ نے تجویز پیش کی کہ الیکٹرک شٹل سروس کے آغاز کے لیے مناسب میکنیزم کی تشکیل کا حکم دیا جائے اور اگر حکومت کوئی انسینٹو متعارف اور نافذ کرواتی ہے تو نجی رکشہ مالکان کو بھی اپنے رکشیشٹل سروس میں بدلنے کا موقع مل سکتا ہے اور اس طرح انہیں کوئٹہ کے تجارتی ایریا میں داخل ہونے سے بھی روکا جاسکتا ہے معزز عدالت نے ڈی جی ٹریفک انجینئرنگ بیورو کو اس ضمن میں جامع تجاویز جمع کرانے کا بھی حکم دیا ہے معزز عدالت کو شہر میں چلنے والے چنگچی رکشوں / موٹر بائیکس کے حوالے سے بھی بتایا گیا کہ یہ سنگین ٹریفک خطرات کا موجب بن رہے ہیں جس پر منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی کہ انہیں پرمٹ فراہم کرنے کی تجویز زیر غور ہے معزز عدالت نے حکم دیا کہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس سلسلے میں کوئی غیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلہ نہیں لیا جائے گا اور متعلقہ ایگزیکٹو برانچ کو بھی اس بات سے آگاہ کیا جائے گا کہ عدالت نے ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد کے لئے سخت پابندیاں عائد کی ہے ایس پی ٹریفک نے نشاندہی کی کہ پرمٹ کے بغیر چلنے والے چار سو کے قریب رکشے ضبط کیے گئے ہیں اس طرح900 لاوارث موٹر سائیکلوں کو بھی ضبط کیا گیا ہے اورسیکشن 523? 524 اور 525 سی آر پی سی کے تحت ریفرنس جوڈیشل مجسٹریٹ الیون کوئٹہ کو پیش کر دیا گیا ہے جو کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے زیر التوا ہے عدالت نے جوڈیشل مجسٹریٹ کوئٹہ کو اس حکم کی وصولی کے 15 دن کے اندر ریفرنس کو حتمی طور پر نمٹانے کی ہدایت کی اور ٹریفک پولیس کو بھی حکم دیا کہ وہ اگلے 15 دن کے اندر لاوارث موٹرسائیکل/ گاڑیوں کو ٹھکانے لگانے کو یقینی بنائیں معزز عدالت نے کہا کہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن کا یہ مشورہ ہے کہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں بغیر پرمٹ والے رکشوں / لا وارث موٹر سائیکلوں کو بھی کوڑا اٹھانے کے آلات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اس ضمن میں وہ ڈپٹی کمشنر، ایس پی ٹریفک اور ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ایک میٹنگ بلا کر طریقہ کار وضع کر سکتے ہیں جس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی عدالت میں موجود ڈویژنل سپریٹنڈنٹ ریلوے کوئٹہ کو ایک بار پھر سی پی804/2020 کے حکم نامے کی کاپی فراہم کی گئی انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کے عدالتی حکم پر عملدرآمد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی مذکورہ حکم نامے میں حکم دیا گیا تھا کہ کوئٹہ شہر کے جنوب سے آنے والی لوکل بسیں ٹریفک کی روانی میں شدید رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن ڈرائی پورٹ کے سامنے والے پارکنگ لاٹ کو عوامی ٹرانسپورٹ کے مسافروں کے پکنگ پوائنٹ کے طور پر عارضی سٹاپ بنایا جائے اسی طرح کوئلہ پھاٹک سمنگلی روڈ کے اردگرد کی زمین کو کوئٹہ شہر میں شمال سے آنے والی بسوں اور وینز کے لئے ڈراپ لین کے طور پر مقرر کیا جائے۔ عدالتی کارروائی کے دوران بتایا گیا کہ 25 مئی 2023 کو عدالتی حکم نامہ کے باوجود کنٹونمنٹ بورڈ کوئٹہ نے اپنی نااہلی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ کوئلہ پھاٹک کیارد گرد کی یہ زمین بنیادی طور پر سدرن کمانڈ کی ہے عدالت کی جانب سے اس امر پر مایوسی ظاہر کی گئی کہ کنٹونمنٹ بورڈ کی طرف سے دیا گیا یہ بیان غلط فہمی پر مبنی ہے اور عدالت کو حقیقت کا پوری طرح علم ہے کہ کوئلہ پھاٹک کی آس پاس زمین حکومت بلوچستان نے پل کی تعمیر کے لئے حاصل کی تھی اور مذکورہ زمین کے بدلے میں حکومتِ بلوچستان کی جانب سے 600 ملین روپے ادا کیے گئے اور 60 ایکڑاراضی سدرن کمانڈ اور اسکے متعلقہ دفاتر کو بھی دی گئی لیکن بعد ازاں اور ہیڈ بریج کے ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سیزمین فاضل رہ گئی جس میں محکمہ جنگلات کو شجر کاری کی ہدایت کی گئی تھی لیکن اب بتایا گیا ہے کہ مذکورہ اراضی متعلقہ دفاتر کی جانب سے خالی نہیں کرائی گئی تھی اس لیے کنٹونمنٹ بورڈ نے کوئی جگہ فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے معزز عدالت نے کمشنر کوئٹہ ڈویژن کو حکم دیا کہ وہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور بورڈ آف ریونیو سے متعلقہ ریکارڈ حاصل کریں اور کنٹونمنٹ بورڈ اور سدرن کمانڈ کے ساتھ یہ زمین خالی کرنے کا معاملہ اٹھائیں کوئلہ پھاٹک کے آس پاس کی زمین جو حکومت بلوچستان نے حاصل کی ہوئی ہے اسے شہر کے مشرق،مغرب اور شمال سے آنے والی پبلک ٹرانسپورٹ بسوں جیسے بلیلی، نواکلی، سمنگلی،کچلاک اور ہنہ اوڑک کے لئے ایک مستقل ڈراپ لین کے طور پر مقرر کیا جائے گا جبکہ پکنگ پوائنٹ کے لئے پشین سٹاف کا علاقہ استعمال کیا جائے گا شہر کے شمال اور مغرب سے آنے والی ٹرانسپورٹ جیسے سریاب روڈ سبزل روڈ سپینی روڈ اور بروری روڈ کے لئے ڈرا پ لین کے طور پر پر دوکانی بابا چوک اور جائنٹ روڈ سٹاپ کے طور پر استعمال ہوگا جبکہ پکنگ پوائنٹ کے لئے ڈرائی پورٹ کوئٹہ ریلوے کے سامنے پارکنگ لاٹ استعمال ہوگا اور تمام بسوں / وینز کو آنے جانے کے لیے اصولوں کی پاسداری کرنا ہوگی معزز عدالت نے مزید کہا کہ کمشنر کوئٹہ چیئرمین آر ٹی اے ہونے کے ناطے مقرر کردہ اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے اور تمام پبلک ٹرانسپورٹ مالکان ایسوسی ایشنز کو یہ بھی مطلع کیا جائے گا کہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں ٹریفک کی ہموار روانی میں کوئی رکاوٹ/مداخلت کی گء تو دفعہ 151 سی آر پی سی کے تحت خلل امن کی بنا پر حراست میں لیا جائے گا اور متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان کی پیشی کی جائے گی اور جرم کے اعادہ کی صورت میں دھرنا یا ہڑتال کی شکل میں ٹریفک کو روکنے کی کسی بھی کوشش کو آہنی ہاتھوں سے روکا جائے گا اسی طرح تکرار کی صورت میں دوبارہ حراست میں لیا جا سکے گا جبکہ متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے ذریعے ان کے پہلے کی ضمانتی بانڈ کو قانون کے مطابق فوری طور پر ضبط کرلیا جائے گا معزز عدالت کو بتایا گیا کہ سرکلر روڈ کوئٹہ پر تعمیر ہونے والا ٹریفک انجینئرنگ پلازہ صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہا اور لفٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے مذکورہ پلازہ کو معمر اور معذور افراد استعمال نہیں کر پا رہے ہے سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے مزید نشاندہی کی کہ پلازہ مکمل ہونے کے باوجود ابھی تک اسے آؤٹ سورس نہیں کیا گیا ہے جبکہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے بھی اس کی نیلامی کی ضرورت پر زور دیا ہے چنانچہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن کی سربراہی میں اس سلسلے میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایس پی ٹریفک اور ایڈمنسٹریٹر کیو ایم سی پر مشتمل یہ کمیٹی پلازہ کی فوری نیلامی کو یقینی بنائے گی اور لفٹ،واش روم، بجلی کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے گی اور اگلی سماعت پر عدالت میں رپورٹ پیش کرے گی معزز عدالت نے اس حکم نامے کی کاپی ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان،جوڈیشل مجسٹریٹ11 کوئٹہ،درخواست گزار، پی ایس ٹو سی ایم بلوچستان، ایڈیشنل چیف سیکریٹری ڈویلپمنٹ۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ٹرانسپورٹ بلوچستان، آئی جی پولیس بلوچستان، ڈی آئی جی پولیس ٹریفک، ایس ایس پی ٹریفک، ایس پی ٹریفک ڈائریکٹر جنرل ٹریفک انجینئرنگ بیورو،کمشنر کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایڈمنسٹریٹر کیو ایم سی، ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کوئٹہ اور ڈائریکٹر پبلک ریلیشن سدرن کمانڈ کوئٹہ کینٹ کو اطلاع اور تعمیل کے لیے بھجوانے کا بھی حکم دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے