القادر ٹرسٹ کیس، نیب کا بشریٰ بی بی کوگواہ بنانے کا فیصلہ

لاہور (ڈیلی گرین گوادر) قومی احتساب بیورو نےالقادر ٹرسٹ کیس میں بشریٰ بی بی کوگواہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔نیب نے بشریٰ بی بی کو نوٹس بطور ملزمہ نہیں بلکہ بطور گواہ جاری ہوا قومی احتساب بیورو (نیب)کی جانب سے بشری بی بی کو بھجوائے گئے نوٹس کے مطابق 7 جون کو بشری بی بی کا بطور گواہ بیان قلمبند ہوگا۔ طلبی بطور ملزم ہے یا گواہ ترمیمی ایکٹ کے تحت نیب نوٹس میں بتانے کا پابند ہے، بشری بی بی کو جاری نوٹس میں بطور گواہ طلبی کا ذکر موجود ہے۔نوٹس میں بشری بی بی سے القادر ٹرسٹ کی دستاویزات بھی طلب کرلی ہے جبکہ القادر ٹرسٹ کی رجسٹریشن، پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظوری کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا گیا۔

یاد رہے تین روز قبل احتساب عدالت میںالقادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی عدالت میں پیش ہوئیں تھیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ نیب کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن نیب کسی دباؤ میں نہیں آئے گا قانون کے مطابق کام کرے گا، نیب نے نہ تو کوئی چھاپہ مارا نہ وارنٹ جاری کیے، نیب کا کسی سے ذاتی مسئلہ نہیں قانون کے مطابق تفتیش کریں گے تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری کی ضرورت نہیں، تفتیشی افسر کے بیان کے بعد عدالت نے بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت غیر موثر قرار دے دی تھی۔

واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق ملک کے معروف بزنس ٹائیکون ملک ریاض نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے جہلم میں 458کنال 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019ء کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم این سی اے کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔

عمران خان نے چار سال قبل ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا نیب کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔

2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے بزنس ٹائیکون کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر تحقیقات کے نتیجے میں بزنس ٹائیکون نے تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔

تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں بزنس ٹائیکون ملک ریاض کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔نیب کے مطابق ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔2019 میں عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے