سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پاناما کیس میں جانبداری و دباو کا اعتراف کرکے قوم کو سچ بتادیں، امان اللہ کنرانی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے اندر اعلی عدلیہ کے آڈیو لیکس کا بڑا چرچہ ہے جس کو بالواسطہ طور پر تسلیم بھی کیا گیا ہے بلکہ اس کے اندر گفتگو کی روشنی میں بین ہی اس ہی طرح عدالتی فیصلوں کے زریعے رونما ہوکر عوام کے سامنے عیاں و عْریاں ہوچکا ہے جس سے میڈیا کے اندر بحث و مباحثے کئے جارہے ہیں طنز و مزاح عام ہوگیا ہے عوام میں تذبذت و اضطراب پیدا ہوگیا ہے کہ اعلی عدلیہ میں رشتوں و ناطوں و تعلق یا سیاسی وابستگیوں و سفارش و بنچ فکسنگ و فیصلوں کی پیش گویوں ودامادوں و ساس کے Nexus اور اس پر عمل پیرا عدلیہ سے کوئی باز پرس و سوال و محاسبہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہیں ان تحفظات کے تناظر میں معاشرے میں سے عام کچھ لوگوں سمیت پاکستان و صوبائی بار کونسلوں نے اپنی اپنی تحریری شکایات بھی درج کی ہیں مگر بجائے چیف جسٹس عْمر عطا بندیال آئین کے آرٹیکل 209 کے رو سے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلاکر ان شکایات کی انکوائری کراتے گھر کی بات گھر میں رہ جاتی مگر انہوں نے اس کے جواب بنچ میں ”مولاجٹ فلم کے حسین راہی”کے کردار کو ترجیح دیتے ہوئے موجود متنازعہ جج کا ہاتھ پکڑ کر اعلان کردیا کہ اس کی“بنچ میں موجودگی اس بات کو ظاہر کرنا ہے ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں“گویا اس نے اپنی جانبداری کا اعلانیہ اظہار کرکے خود کو سْپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس بلانے یا صدارات کرنے سے نااہل کردیا ایسی صورت حال میں آئین کا آرٹیکل 209 غنڈوں میں پہنس کر دْھائی دینے کیلئے وفاق پاکستان کے دروازے پر“دستک”دینے پہنچ گئی وفاقی حکومت نے اس میں از خود کاروائی کی بجائے پھر بال عدلیہ کے کورٹ میں پھینک دیا اور اس کے لئے ملک کے سپریم کورٹ و ہائی کورٹس کے تین سینئر ترین معزز جج صاحبان پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دے کر صاف و شفاف انکوائری کی بنیاد رکھ کر ایک ماہ میں متوقع رپورٹ کیلئے متعلقہ چیئرمین و ممبران کو درخواست کردی ہے میرے نزدیک یہ خوش آئند عمل ہے اس معاملہ کو اْلجھانے کیلئے ایسے شخص کا یہ مطالبہ یہ رکارڈنگ کس کی ایماء پرہوئی وہ بے وزن ہے کیونکہ وہ خود ایسے عمل کا نہ صرف ذاتی پر میڈیا کے زریعے دفاع کرتے رہے ہیں بلکہ ان کے اپنے دور کے وفاقی وزیر قانون و اٹارنی جنرل ایسے عمل کو جائز سمجھتے رہے ہیں و عدالت عظمی میں دفاع کرتے رہے ہیں بلکہ عدالت عظمی کے 10 رْکنی بنچ نے بھی ججز کی نگرانی”Surveillance”نکتے و بحث کے جواب میں اپنے فیصلے محررہ مورخہ 19 جون 2020 میں خاموشی برتی اب بھی اس عمل کے حدود و قیود کو ضرور اپنے موزوں وقت پر آئین کے آرٹیکل /9&14,10-Aکی روشنی میں دیکھا جائے مگر اس کی آڑ و گرداب میں اصل معاملہ کو نہ اْلجھایا جائے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی کا قول ہے“یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے”پھر حضور اکرم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے زریں اعمال میں شکوک و شبہات کو رفع کرنے کا اس حد تک خیال رکھا گیا ہے کہ ایک شام مغرب کے قریب حضور اکرم نبی پاک اپنی ازواج میں سے ایک کے ساتھ گزر رہے تھے تو پاس کھڑے لوگوں کو بآواز بلند بتایا میرے ساتھ میری اہلیہ ہیں‘انہوں نے کسی شک کے اظہار و دل میں قیاس سے قبل اس اس کو کْچل دیا اس لئے معلاملات سْلجھا کر عدلیہ پر اْٹھنے والے انگلیوں سے اعلی عدلیہ کی ساکھ و وقار غیر جانبداری کے تاثر و حقیقت و ضرورت کو پورے آب و تاب کے ساتھ بحال کیا جائے جیسی عدلیہ جسٹس کارنیلس و جسٹس ایم آر کیانی و جسٹس دراب پٹیل و جسٹس بھگوان داس و جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرح غیر جانبدارانہ رویوں سے ان کی شہرت و احترام و بھروسہ ہو جس پر دونوں اطراف کے فریقین اعتماد کرسکیں آخر میں اس تنازعہ سے نکلنے کا آسان جرات مندانہ کردار و اظہار کا تقاضا بھی ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی و جسٹس مظاہر علی نقوی انکوائری کی گرداب و مٹی و دھول اچھالے جانے سے قبل اپنے اپنے عہدوں سے سبکدوش ہوجائیں اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پاناما کیس میں جانبداری و دباو کا اعتراف کرکے قوم کو سچ بتادیں اور جنوبی افریکہ کے Truth&Reconciliation کی کو مثال زندہ کردیں اور پھر اس کے کیس کے مانیٹرنگ جج اعجازالاحسن بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال الرحمن جس نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں اپنے خلاف کچھ زکر پر استعفیٰ دے دیا اور آج اللہ تعالی نے پھر اس کو عزت سے نواز اور چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نامزد ہوئے اس لئے اعجازالاحسن بھی ان کی پیروی میں استعفیٰ دے دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے