پی ڈی ایم ہم نے پاکستان کی تشکیل نو کیلئے بنائی تھی اور چاہتے تھے کہ ایک نئے پاکستان کی تخلیق کریں، محمود خان اچکزئی

کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور پی ڈی ایم کے مرکزی نائب صدر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پی ڈی ایم ہم نے پاکستان کی تشکیل نو کیلئے بنائی تھی اور چاہتے تھے کہ ایک نئے پاکستان کی تخلیق کریں، یہ ملک ناانصافیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے، پی ڈی ایم کے کارکن ملک کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور آئین کا دفاع کرنا جانتے ہیں، پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے ججز کے ہم سب مقروض ہیں اور وہ اس ملک کے جمہوری ہیروز ہیں، ہم ان کے بھی مقروض ہیں جنہوں نے مختلف مارشل لاؤں میں گولیاں کھائی اور شہید ہوئے۔میری بندیال صاحب کے ساتھ کوئی ذاتی پرخاش نہیں،مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ جب مارشل لائیں لگی تو بندیال صاحب نے پی سی او کے تحت کہیں نہ کہیں حلف اٹھایا ہے یا نہیں،لیکن جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے انہیں نوکریوں سے نکالو، جن جرنیلوں نے آئین کو پھاڑا،آئین کی مخالفت کی یا مارشل لاء لگایا اس کے خلاف بھی کچھ ہونا چاہیے، آج سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس پاکستان کو جمہوری انداز میں آئین کی بالادستی میں چلانا ہے۔ آمروں کی گناہوں کو پارلیمان میں مختلف ادوار میں معاف کیئے آج لوگ پارلیمان پر اعتماد نہیں کررہے۔عدل کو قائم کرنا ہوگا جہاں عدل نہیں ہوگا وہ معاشرہ نہیں چل سکے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے زیر اہتمام احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آج ہم یہاں شاہراہ دستور پر اس لئے اکھٹے نہیں ہوئے کہ کسی کو گالی دیں کسی کو برا بھلا کہیں، کسی کو دھمکی دیں۔ یہاں ہم اس لیئے جمع ہوئے ہیں کہ پاکستان ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے 75سال میں اس حالت تک پہنچا،ہم سب نے جرنیلو، ججوں، پارلیمان کے ممبرز، سیاسی لوگوں نے اور ہم نے جو کچھ کیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ ملک ڈوب رہا ہے، قرآن کریم کی آیت ہے اللہ پاک فرماتے ہیں ”جو بات کہو، سچ کہو“ ہر انسان اپنے اعمال کا رہل ہے۔ یہ ملک ہماری بدکاریوں، بد اعمالیوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے، آج پاکستان میں توبہ کرنے کا وقت ہے۔ جرنیل، جج، سیاسی لیڈر، جرنلسٹ سب توبہ کرے، پیپلز پارٹی اور ساری پارٹیاں توبہ کرے اور نئے سرے سے جن مقاصد کیلئے ہم نے پی ڈی ایم بنائی تھی اس کیلئے ہم کام کریں۔ پی ڈی ایم ہم نے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں پاکستان کی تشکیل نو کیلئے بنائی تھی، ہم چاہتے تھے کہ ایک نئے پاکستان کی تخلیق کریں اور مولانا نے بڑا کمال کیا آج انہوں نے احتجاج کا یہ جلسہ عام شاہراہ دستور پر رکھا، پولیس والوں کی طرف سے اُسے کہا گیا کہ یہ ریڈ زون ہے یہاں جلسے نہیں ہونے چاہیے، میں اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ پی ڈی ایم کے کارکن اپنے ملک کی اہمیت کو سمجھتے ہیں یہاں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹے گا، کسی بھی پولیس والے کے ساتھ بُری بات نہیں ہوگی، کسی جج کا راستہ بند نہیں کیا جائیگا، کسی کے ساتھ تلخ کلامی نہیں ہوگی، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہاں اس ملک میں آئین کی بالادستی ہوگی، یہ شاہرہ دستور ہے آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ شاہرا دستور اپنی آخری پلرز تک عوام سے بھرا پڑا ہے۔ یہ وہ سیاسی کارکن ہیں جن کو نہ کسی نے پیسہ دیا ہے اور نہ ان کو کوئی رشوت دی ہے اور نہ ہی آنیوالے دنوں میں کسی کے ساتھ نوکری کا وعدہ کیا ہے۔ یہ ملک کے وہ بچے ہیں جو آئین کا دفاع جانتے ہیں، میں درخواست کرونگا پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز سے کہ بابا نعروں سے کچھ نہیں ہوگا، یہ پارلیمنٹ، ہمارے کروڑوں عوام اور ہم سب بعض لوگوں کے مقروض ہیں، وہ ججز جنہوں نے پہلے مارشل لاء کا ساتھ نہیں دیا انہوں نے اپنے بچوں کے پیٹ پر لات ماری،گھر چلے گئے، پاکستان کے عوام نے انہیں بھلا دیاہے یہ گناہ ہے۔ جن ججوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف فیصلہ دیا، اپنی نوکری چھوڑدی اور گمنامی میں وفات پاگئے ان ججوں کی یہ پارلیمنٹ مقروض ہے، ان ججوں کی پیپلزپارٹی، جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ ن سب مقروض ہیں۔ہم نے وعدہ کرنا ہوگا کہ جب انتخابات ہونگے اور عوام کی طاقت سے یہاں یہ پارلیمنٹ آئینگے تو انہوں نے ان ججوں کو جنہوں نے مارشل لاؤں کا ساتھ نہیں دیا اور اپنے بچوں کے پیٹ پر لات ماری، اپنے بچوں کی روٹی اور تنخواہیں قربان کردی وہ اس ملک کے ہیروز اور جمہوری ہیروز ہیں، ان کے بچوں کو تمام تنخواہیں دینی پڑینگی۔ اور ان کو جمہوریت کا چیمپئن اعلان کرکے یہاں ان کی تنخواہیں اعلان کرنی ہوگی، ہم ان کے بھی مقروض ہیں جنہوں نے مختلف مارشل لاؤں میں گولیاں کھائی شہید ہوئے، ان میں سندھی، پشتون، بلوچ،سرائیکی، پنجابی سب تھے لیکن ہم نے ان شہیدوں کو بُھلادیا، وہ جمہوریت کے شہید ہیں جس وقت بھی یہ پارلیمنٹ جمہوری بنے ہمیں ان لوگوں کو جنہوں نے نہ وزیر اعلیٰ بننا تھا، نہ وزیر اعظم بننا تھا، جمہورکی حکمرانی کیلئے سندھ، بلوچستان کے پشتون بلوچ علاقوں، خیبر پشتونخوا اور فاٹا میں سینکڑوں لوگ گولیوں کا نشانہ بنے، وہ تاریکیوں میں مارے گئے۔ لیکن اُن کا ہم سب پر حق ہے، اس پارلیمنٹ نے، ان تمام سیاسی پارٹیوں نے فیصلے کرنے ہونگے اور جن جرنیلوں نے آئین کو پھاڑا، جنہوں نے آئین کی مخالفت کی یا مارشل لاء لگایا اس کے خلاف بھی کچھ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں بے کار، ظالم آدمی نہیں ہوں لیکن کم از کم ان جرنیلوں کیخلاف بھی ایک بات پارلیمنٹ میں آنی چاہیے کہ آج پاکستان کے ادارے جرنیل، جج، سیاسی پارٹیاں، جرنلسٹ سارے اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس پاکستان کو جمہوری انداز میں آئین کی بالادستی میں چلانا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میرا بندیال صاحب کے ساتھ کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے، مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ جب مارشل لائیں لگی تو بندیال صاحب نے پی سی او کے تحت کہیں نہ کہیں حلف اٹھایا ہے یا نہیں تجویز کرتا ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کو کہ جب بھی انتخابات ہو اور یہاں جمہور کی حکمرانی ہو ان تمام ججوں کو چاہیے کہ وہ چاہے اس میں میرا باپ ہی کیوں شامل نہ ہو یا چیف جسٹس ہی کیوں شامل نہ ہو جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے، انہیں نوکریوں سے نکالو سب کو فارغ کرو، تم ایجنٹ ہو اس کے۔ انہوں نے کہا کہ بندیال صاحب آپ کو پتہ ہے کہ میں لڑنا نہیں جانتا اور چاہتا بھی نہیں ہوں، پارلیمان طاقت کا سرچشمہ ہے، ایوب خان نے جو کچھ کیا تھا، جتنے بھی گناہ کیئے تھے پارلیمانی تحفظ (یعنی تمام گناہیں معاف) ایوبی مارشل لاء کی تمام گناہیں پارلیمنٹ نے معاف کیئے اور لوگوں نے مان لیئے، ضیاء الحق کی تمام گناہیں ا س پارلیمنٹ نے معاف کیئے لوگوں نے مان لیئے، ضیاء الحق نے لوگوں کو مارا تھا سب نے معاف کردیا، لیاقت باغ میں جلوس پر حملہ ہوا تھا درجنوں کارکن شہید ہوئے اس پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل تھا لیکن اس نے سب کو معاف کیا، آج لوگ پارلیمنٹ کی بات نہیں مان رہے۔ 400سال پہلے انگلستان کے پارلیمنٹ کے دو ممبرز بادشاہ کو درکار تھے، انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے بُرا کیا ہے، کوئی گناہ کیا ہے، بادشاہ پارلیمنٹ آئے،دروازہ کھولا اور سپیکر سے کہا کہ فلاں فلاں ممبرز نے یہ جرائم کیئے ہیں انہیں میرے حوالے کردو،سپیکر نے کہا کہ بادشاہ سلامت میں آپ کو جانتا ہوں آپ انگلستان کے بادشاہ ہیں لیکن میں یہاں پارلیمان کا سپیکر ہوں یہاں میری آنکھیں، کان وہ ہیں جو پارلیمنٹ کی ہیں آپ کو پارلیمنٹ کے ممبرز حوالے نہیں کرسکتا اور بادشاہ کو انکار کیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آج لوگ پارلیمنٹ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، پارلیمنٹ عوام کی طاقت سے بنتی ہے، پارلیمنٹ آئین بناتی ہے، پارلیمنٹ آئین کو توڑتی ہے، یہ پاکستان ہے اگر کسی نے اسے چلانا ہے اور یقینا چلانا چاہتے ہونگے تو ججوں نے یہ حلف لینا ہوگا کہ ہم نے آئین کی پاسداری کرنی ہوگی، جرنیلوں نے یہ حلف لینا ہوگا کہ ہم نے آئین کی پابندی کرنی ہوگی۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں مولانا فضل الرحمن صاحب، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کے اکابرین سے درخواست کرونگا کہ ہم اپنے عوام کو یہ بتا دیں کہ پاکستان کا آئین آپ لوگوں کی طاقت ہے، آپ لوگوں کی امانت ہے۔ تین قسم کے لوگ کھلواڑ کرتے ہیں یا ایک جرنیل غلطی کرتا ہے آئین کو پامال کرتا ہے اس کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا، تمام پاکستان بند کرنا ہر سیاسی کارکن کا حق ہے، ہم نے اپنے کارکنوں کو یہ ٹریننگ دینی ہوگی کہ جس دن کوئی جرنیل آئین توڑیگا ہم اس طرح ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں نکلیں گے جس طرح ترکی میں ہوا اور جرنیل سے کہیں گے کہ بھائی اپنے گھر چلے جاؤ اور یا اگر کوئی جج جوڈیشل ایکوٹیزم کرتا ہے یا کوئی جج اپنے آئینی حدود سے بڑھتا ہے تو اور گڑھ بڑھ کرتا ہے تو یہ بھی عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جج کو پکڑ کر گھر بھیج دے اور کبھی کبھی پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا رہتا کہ ملک کا وزیر اعظم ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خلافت مومنین بن گیا ہوں، میں فلانا بن گیا ہوں اس وزیر اعظم کے خلاف بھی کارکنوں کا یہ حق ہے کہ اس کیلئے ہمیں کارکنوں کو ٹریننگ دینی چاہیے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے ہو، چاہے خدانخواستہ مولانا فضل الرحمن ہی کیوں نہ ہو، ہم نے گلیوں میں نکل کر ان کو آئین کے دائرہ میں لانا ہے۔ آئین کوئی گپ شپ نہیں ہوتا، آئین ہماری زندگی گزارنے کے، ہمارے گاؤں چلانے کے وہ رسم ہے، جس طرح گاؤں چلاتے ہیں، گاؤں میں ہر ایک کی ڈیویٹیاں معلوم ہوتی ہیں کہ امام کی کیا ڈیوٹی ہوگی، چرواہے کی کیا ڈیوٹی ہوگی۔ ملک اور خان کی کیا ذمہ داری ہوگی، گاؤں کے جرگے کی کیا ڈیوٹی ہوگی اسے آئین کہتے ہیں۔ آئین کسی ملک کے چلانے کا وہ مقدس کاغذ ہے جس کی دفاع سیاسی کارکنوں نے کرنی ہوگی اور بڑی ہمت سے کرنی ہوگی۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں، جمعیت علمائے اسلام کے کارکنو،آپ بڑے دور دور سے آئیں ہو، مسلم لیگیوں اور سب پارٹیوں کے کارکنو، اگر ہم نے پاکستان کو چلانا ہے، خدا کو حاضر وناظر جان کر تمام پارٹیوں نے وعدہ کرنا ہوگا کہ یہاں آئین کی حکمرانی ہوگی، اب تو تماشہ ہے۔ میں کسی کانام نہیں لیتا، اس ملک میں کوئی ادارہ سچ نہیں کہتا، رشوت لینا، رشوت مانگنا،لوگوں کے زمینوں پر قبضہ کرنا، شیر مادر کی طرح حلال سمجھا جاتا ہے، انصاف کی چھٹی ہوگئی ہے۔ قرآن کریم کا دعوی اگر چہ ہم کرتے ہیں لیکن وہ ساری انسانیت کیلئے ہیں۔ قرآن کریم میں بڑے واضح انداز میں بعض قوانین بیان کیئے ہیں۔ قرآن کریم کہتاہے کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور خیر کے کاموں میں تعاون کریں اور بدی اور شر کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کریں۔ اگر اس آیت پر ساری دنیا چل پڑے تو ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔قرآن کریم کہتا ہے کہ آپ عدل کریں تاکہ یہ آپ کو تقویٰ کے قریب لائیں۔جج صاحب، جرنیل صاحب، خان صاحب، ملک صاحب گھر میں بھی اگر عدل نہیں ہوتا تو وہ گھر نہیں چلتا۔ بیوی اور شوہر کے درمیان عدل وانصاف نہیں ہوتا تو بیوی اور شوہر کی یہ شادی نہیں چلتی۔ دوبھائیوں کے درمیان عدل نہیں ہوتا تو یہ گھر نہیں چل سکتا۔ ہم نے عدل کیلئے یہ بلڈنگ بنائی ہے جو آدمی،جو جج عدل کریگا وہ ہماری آنکھوں کا تارا ہے اور جو عدل کے نام پر ڈنڈی ماریگا اُسے ہم کہیں گے کہ بابا ہمیں معاف کرو گھر جاؤ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے