پارلیمنٹ کی جانب سے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان ان کے خلاف عدم اعتماد کا مظہر ہے ، امان اللہ کنرانی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ملک میں جاری عدالتی و پارلیمانی و آئینی سیاسی و بْحران و کشمکش پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ماضی کے تجربات کی روشنی میں چیف جسٹس عْمر عطا بندیال کو قابل عمل مشورے دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے پیر 15.5.2023 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان دراصل ان کے خلاف عدم اعتماد کا مظہر ہے دوسری جانب ملک کی ایک درجن سے زائد مقتدر و مقبول و موثر و متحرک و جمہوری سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم جنھوں نے ملک کی سیاست و جدوجہد میں بیش بہا قربانیاں دی و حکومت و اپوزیشن کے مراحل سے گزرنے کا نصف صدی سے زائد کا تجربہ رکھتی ہیں سب نے متفقہ طور پر چیف جسٹس کی حیثیت و کردار و ساکھ و کارکردگی پر سنگین اعتراضات کے ساتھ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جانبداری کی بنیاد پران سے فوری استعفی کا مطالبہ کیا ہے دراصل ریاست 3تین ستون پر مشتمل ہوتا ہے جس میں مقننہ و عدلیہ و انتظامیہ شامل ہیں بدقسمتی سے ان تینوں میں سخت تناو کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے مزکورہ بالا اقدامات انتھائی سخت و غیر معمولی و ناخوشگوار ہیں اس صورتحال سے بچنے و ملک کے ماحول کو تلخی سے بچانے کے لئے میرا چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو مشورہ ہے کہ اب جب انکی ریٹائرمنٹ میں صرف 120 دن رہ گئے ہیں جس میں سے 90 دن کیلئے گرمیوں کی طویل تعطیلات شامل ہیں معمول کے مقدمات کی سماعت نہیں ہوسکے گی ان گھمبیر حالات،ماضی کے حالات و واقعات کے تناظر میں یاددھانی کراتا ہوں کہ جب ملک کے مقبول سیاسی و جمہوری رہنما و طاقتور ترین وزیراعظم ذوالفقار بھٹو شہید کے خلاف مارچ 1977 سے 5 جولائی 1977 تک چار مہینے کے دوران ملکی حالات سنگین و مخدوش ہوگئے تو وہ مشورے کے لئے اس وقت کے عظیم مفکر مولانا سید ابوالاعلی مرحوم کی ملاقات کیلئے ان کے گھر گئے اور ان سے مشورہ مانگا وہ اس مشکل میں کون سا راستہ اپنائیں مولانا صاحب نے بڑا صائب مشورہ دیا بہتر ہے آپ استعفی دیں گو انھوں نے ایسا نہیں کیا مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اگر وہ بروقت مولانا صاحب کے مشورے پر عمل کرتے تو وہ اس بھیانک کے انجام سے دوچار نہہوتے اسی طرح جنرل پرویز مشرف بھی جب 2007 میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کی خواہش رکھتے تھے تو اس وقت حکمران جماعت مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری جناب شجاعت حْسین صاحب نے انھیں مشورہ دیا کہ ایسا نہ کریں اور عزت کے ساتھ اپنی مدت پوری کرکیرخصت ھوجائیں مگر انھوں نے ضد و انا و جبر کے ساتھ صدارتی الیکشن لڑا اور جیتا مگراس کا انجام اچھا نہیں ھوا اس کے بعد وہ چندہ ماہ تک بھی صدارت کی کْرسی پر متمکن نہ رہ سکے اور سنگین غداری کیس و سزا کا دھبہ سر پر سجائے دیار غیر میں سسک سسک کر جان دی حتی کہ انکی آخری دیدار و زیارت و جنازہ بھی مخفی رہا موت کے بعد بھی عوام میں شکل دکھانے کے قابل نہ ٹھیرے آج ایسی ہی کیفیت عمر عطا بندیال کی بن چکی ہے صرف چند دنوں کی خاطر اپنی زندگی کے آخری دنوں کو زلت و رسوائی کی زندگی میں گزارنے سے بہتر ہے عزت کے ساتھ استعفیٰ دیں یا چار ماہ کی رخصت پر چلے جائیں عدلیہ کے اندر بھی ان کے رویوں سے ان کے اپنے ہی ساتھی جج صاحبان شاکی و نالان ہیں شاید یہی خوف چیف جسٹس کو فْل بنچ کی تشکیل سے روک رہا ہے جس نیان کو ون مین شو کی جانب دھکیل دیا ہے جس سے عدلیہ کی بے توقیری ھورہی ہے ایک طرف ریاست کے دو ستون ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ھوگئے ہیں تیسرا ستون عدلیہ مضمحل و مضطرب و منفرد و منتشر ہے ایسی فضا میں ھٹ دھرمی و انا کی تسکین ادارے و افراد کے مستقبل پر ایک خطرناک و ھولناک اثرات مرتب کرے گا آخری راستہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلاکر ججوں کی کمی کو دور کرنا و سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے خلاف ریفرنسوں کا فیصلہ کرکے سفارشات مرتب کرنا ہے اور پارلیمنٹ کے پاس کردہ پریکٹس و پروسیجر 2023پر حکم امتناع واپس لیکر اس کے تین رکنی کمیٹی کا اجلاس بلاکر سپریم کورٹ میں از خود کارواء کے مقدمات کا از سر نو جائز لیکر اس کے تحت 5 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے اس قانون کے نفاذ کے بعد تمام از خود کاروائیوں بشمول SMC 1/2023 و اس پر عملدرآمد کیلئے عدالتی احکامات کو فی الوقت التواء میں ڈال کر کمیٹی کو کام کرنے دیا جائے عدالت عْظمی میں فرد کی بجائے ادارجاتی عمل کو ترجیح دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے