غیرت کے نام پر قتل عام کے خلاف فوری قانون سازی وقت کی ہم ضرورت ہے، گورنر بلوچستان

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی عورت کا قتل ہوا وہ ناحق ہوا،اسلام سے قبل عورت کو ذندہ دفنایا جاتا تھا، اسلام کی اصل تعلیمات کو عام کرکے اس مسئلے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے کمزور فیصلوں کے باعث خواتین کے قتل کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔۔عدالتوں کے ساتھ وکیل بھی کمزور فیصلوں کی وجہ ہے، عدالتوں نے اس مسئلہ پر کبھی بات نہیں کی، گورنر بلوچستان کا کہنا تھا کہ قبائلی جرگوں نے قتل کے بدلے خواتین کو دینے کا عمل کو ختم کردیا ہے۔ خواتین کے قتل کا معاملہ سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا پر آتا ہے، ہم چاہتے ہیں میڈیا آزاد ہو۔تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں غیرت کے نام پر بڑھتے ہوئے قتل عام کی روک تھام میں مذہبی قبائلی سیاسی اور سول سوسائٹی کی ذمہ داریاں اور قانون سازی کی ضرورت کے عنوان سے عورت فاؤنڈیشن بلوچستان اور ٹوڈیز ویمن آرگنائزیشن کے زیر اہتمام بلوچستان ویمن بزنس ایسوسی ایشن، پریس کلب کوئٹہ اور بلوچستان کمیشن آن دی اسٹیس آف ویمن کے اشتراک سے منعقدہ ہوا، اجلاس میں گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ، سابق اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی، سابق ممبر صوبائی اسمبلی محترمہ ڈاکٹر شمع اسحاق، پروفیسر فرخندہ اورنگزیب، عورت فاؤنڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی، پروین ناز، مذہبی اسکالر مفتی کلیم اللہ حیدری، ایواجی الائنس اور بلوچستان پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکن و بلوچستان ویمن بزنس ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن ثناء درانی، بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر عرفان سعید، ڈاکٹر عائشہ دوریجو، بلوچستان کمیشن برائے حیثیت خواتین کی چیئرپرسن محترمہ فوزیہ شاہین، ٹوڈیز ویمن آرگنائزیشن کے سربراہ گل حسن درانی نے خطاب کیا۔ بلوچستان کمیشن برائے حیثیت خواتین کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین نے پینل ڈسکشن میں خواتین کے لئے ابتک کی گئی قوانین اس میں حائل رکاوٹوں اور نئے خصوصی قانون کی اہمیت پر زور دیا، شرکاء کو بتایا گیا کہ عورت فاؤنڈیشن کے رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پچھلے 5 سالوں میں خواتین پر تشدد کے 542 واقعات میں 354 افراد قتل ہوئے جس میں 303 خواتین قتل ہوئیں جس میں 149 خواتین اور 51 مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے اس قومی ڈائیلاگ میں عورتوں کے خلاف تشدد اور غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کر نے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا، پاکستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار کا تجزیہ بلوچستان میں پالیسی اور قوانین مرتب کرنے میں مدد کرے گا مقررین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے اس قومی ڈائیلاگ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرناہے جس کا مقصد زیادہ معلوماتی اور مددگار ماحول اور سماجی دباؤ پیدا کرنا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسیوں اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتو ں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز، غیر مساویانہ امتیاز اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہو ا ذریعہ بن رہا ہے کسی بھی قسم کے تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت غیرت کے نام پر قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے بلوچستان میں آئے دن خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور غیرت کے نام پر واقعات میں سب سے زیادہ واقعات نصیر آباد میں رپورٹ ہوئے جبکہ تشدد کے واقعات میں کوئٹہ دوسرے نمبر پر ہے ہمارے معاشرے کے بعض رسم و رواج اسلام سے متصادم ہونے کی بنا پر عورتوں کے حقوق کی نفی کرتے ہیں خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی، تعلیمی، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا مقررین نے کہا کہ پچھلے75 سالوں میں ہم نے عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا ان کو طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اْس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔ غیرت کے نام پر قتل کی رسم پورے پاکستان میں ہوتی ہے سندھ کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کو ‘کارو کاری خیبرپختونخوا میں ‘تور تورا’، بلوچستان میں ‘سیاہ کاری’ اور پنجاب میں ‘کالا کالی’ کی طور پر جانا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر جرائم پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں تاہم بہت سے اسلامی ممالک میں سماجی اور ثقافتی اصولوں کے خلاف ورزیوں پر خاندان کے افراد کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل بھی عام بات ہے اگرچہ دنیا بھر میں مجرمانہ طور پر سزائیں دی جاتی ہے لیکن اس طرح کے قتل کو اکثر خاندان والے مذہب کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں اور شاذ و نادر ہی سزا دی جاتی ہے یہاں تک کہ جب سزائیں دی جاتی ہیں تو سزائیں عام طور پر ہلکی ہوتی ہیں قصاص اور دیت کے اصولوں کا وجود متاثرین کے قانونی ورثاء کو خون کی رقم کے عوض مجرموں کو معاف کرنے کے قابل بناتا ہے پاکستان خصوصاً بلوچستان بھی اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں رہا ہر سال ملک بھر میں سیکڑوں افراد خاص طور پر خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہیجرائم کے پھیلاؤ کے باوجود ہلاکتوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی درست اور قطعی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کیونکہ ان واقعات میں سے ایک نمایاں فیصد غیر رپورٹ شدہ ہے اس جرم کے اتنے زیادہ واقعات کی متعدد وجوہات بیان کی جاتی ہیں تاہم غیرت کے نام پر جرم کی بنیادی وجہ نام نہاد خاندان کی بے عزتی کو مٹانے کے لیے قتل کیا جاتا ہے” اور یہ صنفی بنیاد پر تشدد کی قسم ہے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، 2004 سے 2016 تک پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے تقریباً 15222 واقعات رونما ہوئے۔ 2014 میں، 837 خواتین تھی جن میں 75 نابالغ بچیوں کی تھے غیرت کے نام پر جرائم کے معاملے پر حقیقت اور رائے کے درمیان فرق کو نقشہ بنانے کی خواہش نے ریاستی اداروں کی طرف سے 2004 اور 2016 کے فوجداری ایکٹ ترمیم کی گئی۔ صوبوں میں ‘غیرت کے نام پر قتل’ سے متعلق نئے قوانین کی ضرورت ہے اسلام ان جیسے رسومات کی اجازت نہیں دیتا۔ اس نام کو غیرت کے نام پر قتل کی بجائے بے غیرتی کے نام پر قتل رکھنا چاہئے خواتین کو جائیداد سے محروم کرنے کے لئے اس طرح کے غیر شرعی رسومات نبھائے جاتے ہیں اس رسم میں صرف خواتین کو ہی کیوں مارا جاتا ہے 549 واقعات میں 51 مرد قتل ہوئے اور باقی 499 خواتین ہیں یہ کس نے جائز کیا ہے اسلام میں بہنوں، بیٹیوں کو تو حقوق واضح کئے گئے ہیں مگر وہ حقوق کیوں نہیں دیئے جاتے۔غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کیلئے میڈیا اور سول سوسائٹی کے کردار کے حوالے سے دوسرا سیشن منعقد ہوا سینئر صحافی منظور احمد رند نے سیشن کی میزبانی کی، مباحثے کے شرکا نے میڈیا اور سول سوسائٹی کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے، پیس جرنلزم کو پروان چڑھانے، غیرت کے نام کے قتل کیواقعات سے متعلق جامع ڈیٹا کے حصول کیلئے سول سوسائٹی اور اکیڈیمیا کے کردار کو بڑھانے پر زور دیا۔ پروگرام کے آخر میں گورنر بلوچستان نے تمام ماہرین و مقررین میں یادگاری ثقافتی فریم تقسیم کیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے