عمران خان کی گرفتاری جس نے بھی کی، غلط کام کیا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو جس نے بھی گرفتار کیا، غلط کیا ہے عمران خان کے مقدمات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت شروع کی تو شور شرابے پر پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے اس پر ریمارکس دیے کہ یہ غلط کام ہے جس نے بھی کیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی طلب لیا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپ نے غلط کام کیا ہے، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی کو پندرہ منٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ آپ نے غلط کام کیا ہے خیال رہے کہ اب سے کچھ دیر قبل نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دوسری جانب آئی جی اسلام آباد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144نافذ ہے،حالات معمول کے مطابق ہیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی ہوگی۔ چیف جسٹس کے کمرہ عدالت کے باہر پولیس اور ایف سی کی مزید نفری طلب کرلی گئی، آنسو گیس سے لیس سکواڈ کو بھی چیف جسٹس کی عدالت کے باہر تعینات کردیا گیا۔
بعد ازاں عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت کرتے آئی جی اسلام آباد پولیس سے سیکرٹری داخلہ کے بارے میں پوچھا تو ان کو بتایا گیا کہ وہ راستے میں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مطلب راستے میں ہیں؟ انہوں نے سیکریٹری داخلہ کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب ! یہ کیا ہوا ہے؟
اس پر آئی جی نے کہا کہ مجھے وارنٹ گرفتاری سے علم ہوا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ میرے علم کےمطابق نیب تو گرفتار کرنےوالی نہیں تھی۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ میں تفصیلات لےلیتا ہوں کہ نیب کا کونسا افسر آیا بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت سےب کہا کہ وہیل چیئر سے گھسیٹ کر عمران خان کو گرفتار کیاگیا۔ ڈرون سے عمران خان کی مانیٹرنگ کی جارہی تھی۔ عمران خان کو گھسیٹا گی اور زبردستی لےگئے۔ یہ آنکھوں دیکھا حال ہے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ قانون کہتاہےانکوائری کےدوران گرفتاری نہیں ہوسکتی۔ ہائیکورٹ کےاحاطے سے گرفتاری کی گئی۔