میر، وڈیرہ اور سردار کا بیٹا ہوتا شاید آج جیل سے باہر ہوتا ، مولانا ہدایت الرحمان بلوچ

گوادر(ڈیلی گرین گوادر) میر، وڈیرہ اور سردار کا بیٹا ہوتا شاید آج جیل سے باہر ہوتا، آئین اور قانون پر چلنے والے سیاسی لوگ ہیں، ریاست، عدالت و آئین کو مانتا ہوں کہ باربار عدالتوں کے سامنے پیش ہورہا ہوں کہ انصاف ملے گاجس دن عدالتوں سے میرا اعتبار اٹھ گیا تو میں بھی پہاڑوں کا رخ کروں گا، مسلسل ضمانت مسترد ہونے پر افسوس ہوتا ہے،جدوجہد سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے منگل کو گوادر سیشن کورٹ میں پیشی کے دوران میڈیا اور کارکنوں سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر سیشن عدالت سے مسلسل میری ضمانت اس لئے مسترد ہورہی ہے کہ میں میر،نواب،چوہدری و کوئی سردار نہیں بلکہ ایک عام سیاسی کارکن و گوادر کے مچھیرے کا بیٹا ہوں،شاید ایک عام سیاسی کارکن و گوادر کے مچھیرے کے بیٹے کو ضمانت دینا عدالتوں کی توہین ہے اس لئے باربار میری ضمانت مسترد کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا پولیس کے گواہان جان بوجھ کر پیش نہیں ہورہے ہیں ان عدالتوں میں صرف چودریوں،وڈیروں،نوابوں اور سرداروں کو ضمانتیں ملتی ہیں مگر عام سیاسی کارکن کے لیئے ضمانتیں نہیں ہیں،اگر اج میرے نام کے ساتھ کیانی،باجوہ،گنڈا پور و سردار کھیتران ہوتا تو مجھے ضرور ضمانت مل جاتامگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں ایک عام بلوچ ہوں اور عدالتوں نے آج ثابت کردیا کہ عام بلوچ کے لئے ضمانتوں کے دروازے بند ہیں،انہوں نے کہا دوسری بات یہ ہے کہ مجھے عدالتوں سے اس لیئے ضمانتیں نہیں مل رہی ہیں کہ میں منشیات فروش نہیں ہوں اگر کنٹینر سے بھرے منشیات میرے پاس ہوتا تو میں اج باہر آزاد گھوم رہا ہوتا اور یہ عدالتیں بھی مجھے بہ آسانی ضمانتیں دے دیتے, اس لیئے میں منشیات فروش نہیں ہوں مجھے ضمانتیں نہیں مل رہی,ایسا لگتا ہے کہ میں عدالت و آئین کا قیدی نہیں ہوں بلکہ میں اسٹیبلشمنٹ اور اختر مینگل کا قیدی ہوں اس لیئے میں قید میں ہوں, انہوں نے کہا میں پنجاب نیازی کا لیڈر نہیں ہوں جو جیلوں کی صعوبتوں سے رولیں گے, میں اپنے قومی حقوق و عوام کے لیئے ایسی ہزاروں عیدیں جیل میں گزارنے کے لیئے تیار ہوں مگر مجھے کسی کے بھی سامنے سرخم کرنا ہرگز قبول نہیں, اپنے جدوجہد سے دستبردار ہونا ہرگز قبول نہیں, انہوں نے کہا اگر میں چاہوں عمران خان کی طرح دس بیس ہزار لوگ گوادر کی اس سیشن عدالت کی اس ناانصافی کے خلاف لاسکتا ہوں مگر میں اس لیئے اس طرح کے اقدام سے گریز کررہا ہوں کہ میں آئین و قانون کو مانتا ہوں اور دوسری جانب پولیس اپنے گواہان کو پیش نہیں کررہا ہے اور تاخیری حربے استمعال کررہا ہے گو کہ پولیس اہلکار یاسر انہی پولیس نیہی قتل کرکیا ہے, سیشن جج گوادر کے سمن کو گوادر پولیس نہیں مانتا, انہوں نے کہا جو عدالتوں کو نہیں مانتے وہ آج اسلحہ اٹھا کر پہاڑوں پر لڑ رہے ہیں, میں ریاست، عدالت و آئین کو مانتا ہوں کہ ہر بار عدالتوں کے سامنے پیش ہورہا ہوں کہ مجھے انصاف ملے گاجس دن عدالتوں سے میرا اعتبار اٹھے گیا تو میں بھی پہاڑوں کا رخ کروں گا پھر اس کے بعد میں کسی عدالت کا رخ نہیں کروگا, میں آج بہ حثیت ایک مظلوم چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوں کہ مجھے قانون و عدالتوں سے انصاف چاہیے,میں آئین قانون و ریاست کو مانتا ہوں کہ میری امیدیں اب بھی عدالتوں سے وابستہ ہیں کہ وہ مجھے انصاف فراہم کرینگی, اگر کوئی اس امید میں ہے کہ جیل صعوبتوں سے تنگ اکر میں کسی سے معافی مانگوں گا تو انکی خام خیالی ہے جیل سے میری لاش نکلی گا مگر اپنی عوام کے حقوق کی جدو جہد سے دستبردار نہیں ہوگا, واضع رہے گوادر سیشن جج عدالت مولانا عدایت الرحمٰن ضمانت مسترد ہونے کے خلاف احتجاجاً متعدد کارکناں سمیت بازو پر سیاہ پٹی بابدھ جر پیش ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے