سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد ، حکمران اتحاد کا ہر فورم پر مزاحمت کا عزم

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ہر فورم پر مزاحمت کا ردعمل ترتیب دے دیا، جس کے تحت پارلیمان سے حکومت کے مؤقف کی توثیق کرائی جائے گی اور آج اجلاس میں ممکنہ طور پر ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔

حکمران اتحاد نے اہم فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں کیا، اجلاس میں حکمران جماعتوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ورچوئل اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا مکمل جائزہ لیا گیا، جہاں لندن سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے شرکت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ’اراکین قومی اسمبلی نے ابھی جاری سیشن میں اس معاملے پر بحث کی اور ایک قرارداد پہلے بھی منظور کر لی گئی ہے جبکہ دوسری قرارداد جمعرات کو ایوان میں پیش کردی جائے گی‘۔انہوں نے کہا کہ ’اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کرنے کا مقصد مجموعی صورت حال کا جائزہ لینا اور مؤثر جواب تیار کرنا ہے‘۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ’آئین اور قانون کے ساتھ مذاق‘ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تین رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کی تھی اور اسی طرح سیاسی جماعتوں کی درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو کروانے کا نہ صرف پابند کیا بلکہ حکومت کو ہدایت کی وہ درکار 21 ارب روپے کا اتنظام کرے اور انتخابات کے لیے مکمل سیکیورٹی یقینی بنائے۔

راناثنااللہ نے کہا کہ ’آج اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کا مؤقف (تین ججوں کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے سے متعلق) آج (جمعرات) کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے اور پارلیمان سے توثیق کروائی جائے گی‘۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی قانونی ٹیم نے اتحادیوں کو تفصیلی بریفنگ دی اور تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ’متنازع، غیرمکمل اور ناقابل عمل‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت ’پارلیمان کی کسی قسم کی بے توقیری اور بے عزتی‘ برداشت نہیں کرے گی۔سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت کی جانب سے تینوں ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اجلاس میں اس پر بات ہوئی ہے لیکن حتمی فیصلہ آنے والے اجلاس میں کیا جاسکتا ہے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں حکومت کی قرارداد سے ایک غلط روایت قائم ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے پارلیمان میں چیلنج نہیں کیے جاسکتے اور جس فیصلے کی حکومت مخالفت کر رہی ہے وہ دراصل اقلیتی فیصلہ ہے نہ کہ اکثریتی ججوں کا فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک منفرد کیس ہے جس کے لیے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، جو بعد میں 7 ججوں پر آیا، پھر 5، 4 اور آخر میں 3 ججوں پر رہ گیا‘۔سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کو توہین عدالت پر فارغ کرنے سے متعلق سوال پر رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ معاملہ ہوا تو عدالت پوری پارلیمنٹ کو فارغ کردے گی کیونکہ ہم اپنے مؤقف کی تائید پارلیمنٹ سے کرنے جارہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے