عمران خان لاہور ہائیکورٹ میں پیش، دہشتگردی کے دو مقدمات اور نیب نوٹسز پر حفاظتی ضمانتیں منظور
لاہور(ڈیلی گرین گوادر) لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کیخلاف اسلام آباد میں درج دہشت گردی کے دو مقدمات اور نیب کی جانب سے دو طلبی نوٹسز میں حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔عدالت نے عمران خان کے اسکین دستخط کا معاملہ اٹھاتے ہوئے وکیل کو کمرہ عدالت میں عمران خان کے دستخط کرانے کی ہدایت کی۔ دستخط کے بعد دو رکنی بینچ نے عمران خان کی تھانہ گولڑہ اور سی ٹی ڈی کے 2 مقدمات میں پیر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جتنی تیزی سے ضمانت لیتے ہیں اتنی تیزی سے نئے کیسز آ جاتے ہیں— فوٹو: اے ایف پی عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جتنی تیزی سے ضمانت لیتے ہیں اتنی تیزی سے نئے کیسز آ جاتے ہیں— فوٹو: اے ایف پیاس کے بعد عمران خان توشہ خانہ سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کے طلبی نوٹسز میں حفاظتی ضمانت کیلئے جسٹس علی باقر نجفی کی عدالت میں پیش ہوئے جہاں جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس شہباز رضوی نے حفاظتی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جتنی تیزی سے ضمانت لیتے ہیں اتنی تیزی سے نئے کیسز آ جاتے ہیں، نیب کے سوال نامے پر تفصیلی جواب تیار ہے۔ اس موقع پر دو رکنی بینچ نے منگل تک حفاظتی ضمانت منظور کی تو وکلا نے مدت بڑھانے کی استدعا کی اور عمران خان خود بھی روسٹرم پر آگئے۔عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے لیکن ان کی الیکشن مہم گھر سے عدالتوں تک ہےعمران خان نے عدالت کو بتایا کہ 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے لیکن ان کی الیکشن مہم گھر سے عدالتوں تک ہے عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے لیکن ان کی الیکشن مہم گھر سے عدالتوں تک ہے۔ ہمیں ٹکٹ دینے تک کا وقت نہیں مل رہا۔
عمران خان نے کہا کہ 50 سالوں میں ایک مقدمہ بھی نہیں تھا جبکہ پچھلے چھ ماہ میں 96 مقدمات درج ہو چکے ہیں، سنچری مکمل ہوچکی ہے۔لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کی جانب سے مینار پاکستان پر 26 مارچ کو جلسے کی اجازت کیلئے دائر درخواست پر ڈپٹی کمشنر لاہور کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے ڈی سی لاہور رافعہ حیدر کو ہدایت کی کہ اسٹیک ہولڈرز سے انتظامی اور سکیورٹی معاملات کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے۔ مینار پاکستان میں پی ٹی آئی جلسہ ہونے کی صورت میں سکیورٹی انتظامات کا بھی جائزہ لیا جائے۔عدالت نے سی سی پی او لاہور کو بھی کل طلب کر لیا۔ عدالت نے باور کرایا کہ اُن کے پاس سابق وزیراعظم کی سکیورٹی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جلسے کی اجازت کا معاملہ زیر غور ہے۔
درخواست میں بتایا گیا کہ مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کا جلسہ ری شیڈول کرکے 26 مارچ کردیا گیا ہے۔ استدعا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کو 26 مارچ کو پی ٹی آئی کے جلسے کیلئے این او سی جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔دوران سماعت عمران خان نے بتایا کہ جب ان کے گھر کے شیشے توڑ گئے تو ان کی اہلیہ کی چیخیں کیمرہ میں ریکارڈ ہوئیں، آج چھپ کر عدالت پہنچا ہوں، اس گاڑی میں آیا جس کا کسی کو علم نہ تھا۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر عدلیہ کو مذاق بنا نے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، اگر تمام فریقین نے عدلیہ کی عزت نہ کی تو پھر توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔عدالت نے سرکاری وکیل کو زمان پارک آپریشن سے متعلق ہدایات لے کر پیش ہونے کی ہدایت کی۔ عدالت نے آئی جی پنجاب سے بھی جواب طلب کر لیا۔عمران خان کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات کیلئے کیس کی سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے وکیل نے کیس ٹرانسفر کرنے کی استدعا کی جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کس بات پر آپ کو عدالت پر اعتماد نہیں؟ یہ تو پہلے کا فیصلہ ہے۔جج نے ریمارکس دیے کہ اگر آئندہ ایسا معاملہ ہوا تو توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، یہ کیس پہلے کا چل رہا ہے، عدالتی حکم بھی پہلے کا ہے، لہٰذا آپ عدلیہ کی توہین نہ کریں، مقدمات کے ریکارڈ کیلئے آپ کو باربار نوٹسز کیے ہیں لیکن آپ مہلت مانگ رہے ہیں۔
عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے وکلاء کو عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیل بدھ تک فراہم کرنے کا حکم دے دیا عمران خان پر اقدام قتل کے مقدمہ کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت میں 6 اپریل تک توسیع کردی گئی۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی تھی جسے منظور کیا گیا۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار پیش ہونا چاہتے ہیں مگر لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہونا تھا۔
اس موقع پر اسٹیٹ کونسل ذوہیب گوندل نے کہا کہ درخواست گزار ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، دو نوٹس ہم نےجاری کر دیے مگر وہ ابھی تک پیش نہیں ہوئے۔اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ تفتیشی افسر سمجھتے ہیں کہ فزیکل بیان ریکارڈ کرانا ضروری ہے، تفتیشی افسر میرے ساتھ چلے میں خود ان کا بیان لاہور میں ریکارڈ کراتا ہوں،یا جس دن عمران خان کو یہاں پیش ہونا ہے اسی دن یہاں بیان ریکارڈ کیا جائے۔