افغان منجمد فنڈز نائن الیون متاثرین کو نہیں دیا جا سکتا،امریکی عدالت

نیویارک(ڈیلی گرین گوادر) امریکا میں نیویارک کی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ حکومت کا افغانستان کے منجمد فنڈز میں سے نصف نائن الیون متاثرین کو دینے کا فیصلہ غیر قانونی ہے اور حکومت ایسا کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیویارک کی ایک عدالت نے افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد فنڈز میں 3.5 بلین ڈالر 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ کو دینے کے حکومتی فیصلے کو غیر قانونی قرار دیدیا۔

جج ڈینیئلز نے 30 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ ججمنٹ کریڈٹرز کو پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر جمع کرنے اور ہماری قوم کی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے متاثرین کو ادائیگیوں کا حق ہے لیکن حکومت یہ ادائیگیاں افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز سے نہیں کر سکتی۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس افغان منجمد فنڈز میں سے متاثرین کو زرتلافی کی ادائیگی کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے۔ زر تلافی کی رقم طالبان کو ادا کرنا چاہیے۔ افغان عوام کو نہیں اور منجمد فنڈز طالبان کے نہیں افغان عوام کے ہیں۔

یاد رہے کہ جوبائیڈن نے فروری 2022 میں نائن الیون حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لوحقین اور دیگر متاثرین کو زرتلافی کی ادائیگی کے لیے منجمد افغان فنڈز سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب لواحقین نے عدالت سے زرتلافی کے حصول کے لیے رجوع کیا تھا اور عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ متاثرین کو فوری طور پر ادائیگیاں کی جائیں۔طالبان حکومت نے جوبائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے کو مسترد کردیا تھا جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پر اعتراضات اُٹھائے تھے۔ بعد ازاں یہ معاملہ عدالت گیا تھا۔ عدالت نے حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا۔

افغانستان کے مرکزی بینک کے 7 ارب ڈالر سے زائد اثاثے ہیں جو طالبان کے 15 اگست 2021 میں حکومت میں آنے کے بعد منجمد کردیئے تھے۔واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ٹوئن ٹاورز، واشنگٹن ڈی سی میں پینٹاگون اور پنسلوانیا کے ایک میدان میں ہائی جیک کیے گئے چار طیارے ٹکرائے تھے جس میں 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

امریکا نے اس کا الزام القاعدہ پر عائد کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کے امیر ملا عمر سے اسامہ بن لادن سمیت چند اہم رہنماؤں کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔تاہم طالبان حکومت نے امریکا سے القاعدہ رہنماؤں کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے شواہد مانگے اور اس کے بغیر ان رہنماؤں کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔جس پر امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کردی اور طالبان حکومت ٹوٹ گئی۔ اکثر رہنما قید کیے گئے، بیرون ملک روپوش ہوگئے یا مارے گئے۔ بیس سال تک امریکا کی پسندیدہ حکومتیں رہیں۔

دو سال قبل قطر میں طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا جس کے تحت امریکا سمیت تمام غیر ملکی فوجیوں کو بحفاظت افغانستان سے نکلنے کی ضمانت دی گئی اور طالبان حکومت کے قیام میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔15 اگست 2021 کو طالبان نے بغیر کسی خون خرابے کے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے۔ 31 اگست تک امریکا سمیت تمام غیر ملکی فوجی واپس چلے گئے۔طابان کی حکومت کو قائم ہوئے دوسرا سال مکمل ہونے کو ہے لیکن اب تک کسی بھی ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ خصوصی مشن تو کچھ ممالک کے کام کررہے ہیں لیکن سفارت خانے بند ہیں اور منجمد فنڈ بھی جاری نہیں ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے