کراچی پولیس آفس پر حملے کی تحقیقات کیلیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل

کراچی(ڈیلی گرین گوادر)آ کراچی پولیس آفس پر ہونے کی حملے کی تحقیقات کیلیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو سہولت کاروں کی نشاندہی کرے گی۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی تشکیل دے دی جس کی سربراہی ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ذوالفقار لاڑک کریں گے۔علاوہ ازیں تحقیقاتی کمیٹی میں ڈی آئی جی ساؤتھ اور ڈی آئی جی سی آئی اے، ایس ایس پی طارق نواز اور انچارج سی ٹی ڈی عمر خطاب بھی شامل ہیں ۔ اعلامیے کے مطابق کمیٹی دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی نشاندہی کرے گے۔اُدھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’کراچی پولیس آفس پر حملے میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتا ہے، تحقیقات میں اس نقطے پر بھی غور کیا جائے گا‘۔

دوسری جانب کراچی پولیس آفس میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کی زیر صدارت ان کے دفتر میں اہم اجلاس ہوا ، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے بھی شرکت کی۔اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ، دستی بم اور خودکش جیکٹس برآمد ہوئی ہیں۔ اجلاس میں کراچی پولیس آفس میں نصب سی سی وی کیمروں کی فوٹیجز میں دہشت گردوں کے حملے کا جائزہ بھی لیا گیا۔

ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو تھے، دہشت گرد ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے اور انہیں ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر کا بھی معلوم تھا ، دہشت گردوں نے ایڈیشنل آئی جی کے دفتر کو ٹارگٹ کیا اور دفتر کے باہر ہی خودکش دھماکا کیا۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق دہشت گرد ایک ماہ تک کے پی او کی ریکی کرتے رہے اور کام مکمل کرنے کے بعد بھرپور تیاری کے ساتھ حملہ کیا۔ دہشت گرد صدر کے علاقےسے آئے اور عقبی دروازے پر گاڑی کھڑی کر کے فائرنگ کرتے ہوئے کراچی پولیس آفس میں داخل ہوئے۔اجلاس میں انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا کہ کے پی او حملے میں تحریک طالبان ملوث ہے ، دہشت گردوں کی شناخت ہوچکی ہے، دہشت گرد جس گاڑی میں آئے اس کے حوالے سے تفتیش کی جا رہی ہے اور سہولت کاروں کے حوالے سے جلد پیش رفت ہوگی۔

اس موقع پر کے پی او کی سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر کے باہر پاک فوج اور سندھ رینجرز کے جوانوں کو تعینات کیا گیا جبکہ دفتر کی چھت پر بھی اسنائپرز تعینات کیے گئے۔واضح رہے کہ کے پی او حملے میں دہشت گرد جس گاڑی میں آئے تھے وہ گاڑی لانڈھی کے رہائشی کامران کے نام پر تھی، جس سے پولیس نے پوچھ گچھ کی تو اس کا کہنا تھا کہ وہ گاڑی کو چند سال قبل شوروم پر فروخت کر چکا تھا، جس پر تفتیشی ٹیم کار شوروم کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ تفتشی ٹیموں نے کراچی سمیت اندرون سندھ کے متعدد مقامات پر بھی چھاپے مارے جس میں کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

دریں اثنا کراچی پولیس آفس پر حملے میں ملوث دہشت گردوں سے اسلحے اور بارودی مواد سمیت دیگر اشیا برآمد کی گئی ہیں جن کی تفصیلات پولیس نے جاری کردی ہیں ، دہشت گردوں کے قبضے سے 2 ایس ایم جیز ملی ہیں جس میں سے ایک ایس ایم جی سے نمبر مٹا ہوا ہے جبکہ کلاشنکوف کے بٹ پر لال رنگ لگا ہوا ہے ۔حملہ آوروں کے پاس سے چار ایسے دستی بم برآمد ہوئے جن کی پنیں نکلی ہوئیں تھیں تاہم وہ پھٹ نہ سکے، دھماکے سے خود کو اڑانے والے حملہ آور کے پاس سے بھی ایک دستی بم ملا اور ہلاک دہشت گردوں سے 2 خودکش جیکٹس بھی ملیں ہیں۔

دہشت گردوں کے پاس بڑی تعداد میں بال بیرینگ ، کھانے پینے کی اشیا بھی موجود تھیں، پولیس نے قبضے میں لیا گیا تمام اسلحہ اور بارودی مواد فارنزک کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا ہے جس کی رپورٹ آنے سے صورتحال مزید واضح ہو سکے گی ۔واضح رہے کہ ایک روز قبل شام سات بج کر دس منٹ پر تین دہشت گردوں نے کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا، جس کے دوران دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں پولیس اہلکاروں، رینجرز جوان سمیت چار شہید ہوئے۔کلیئرنس آپریشن میں سیکیورٹی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کیا جن میں سے دو فائرنگ کے تبادلے میں جبکہ ایک خود کش جیکٹ کے دھماکے سے ہلاک ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق مرنے والے دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے، ایک دہشتگرد کی شناخت زالا نور ولد وزیرحسن کے نام سے ہوئی جس کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔ سیکورٹی آپریشن کے دوران خود کو دھماکے سے اڑانے والے دہشتگرد کا نام کفایت اللہ ولد میرز علی خان تھا اور وہ لکی مروت کے علاقے وانڈہ امیر کا رہائشی تھا جبکہ تیسرے حملہ آور کی شناخت نہیں ہوسکی۔دوسری جانب دہشت گرد حملے اور دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں کراچی پولیس آفس کو شدید نقصان پہنچا۔ کے پی او کی دیواریں چھلنی ہوگئیں جبکہ کھڑکیاں، دروازے ٹوٹے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے