پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ ڈالرز کی افغانستان اسمگلنگ ہے، بلوم برگ

واشنگٹن(ڈیلی گرین گوادر) امریکی جریدے بلوم برگ نے ہر روز لاکھوں ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کو پاکستان کے معاشی بحران کی وجہ قرار دے دیا ہے۔بلوم برگ کے مطابق پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے جا رہے ہیں، اسی اسمگلنگ کی وجہ سے امریکا اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود طالبان کی حکومت کو سہارا مل رہا ہے جب کہ پاکستان کا معاشی بحران بڑھ رہا ہے۔پاکستان میں کرنسی ایکسچینج کی نمائندہ تنظیم ایکسچینج کمپنیز ایسویسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری محمد ظفر پراچہ کے مطابق تاجر اور اسمگلرز ہر روز پاکستان نے 50 لاکھ ڈالر افغانستان لے جارہے ہیں۔

غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی بہاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان کس طرح بین الاقوامی پابندیوں سے بچ رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے لیے یہ زرمبادلہ ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں بتدریج کمی کا باعث بن رہا ہے جب کہ معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی ہے۔اس حوالے سے ظفر پراچہ نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے غیر ملکی کرنسی اسمگل ہورہی ہے اور یہ کافی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔اگست 2021 میں جب طالبان نے دو دہائیوں کے بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تو امریکا اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ ذخائر کو عسکریت پسند گروپ دہشت گردی کے لیے استعمال کئے جانے کے خدشے کے پیش نظر منجمد کردیا تھا۔

اقوام متحدہ کے دباؤ پر امریکا نے افغان معیشت کی مدد کے لیے اس کا نصف حصہ جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن طالبان کی جانب سے افغان خواتین پر تعلیم اور روزگار کے حوالے سے پابندی لگانے کے بعد اسے روک دیا۔17 ماہ گزرنے کے بعد بھی افغانستان بدستور تشویشناک حالت میں ہے اور انسانی حقوق کی صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔مالیاتی شعبے کو مشاورت فراہم کرنے والے نجی ادارے الفا بیٹا کور سلوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے، اندازہ ہے کہ اس میں آدھی رقم پاکستان سے جارہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے مرکزی بینک ’’دا افغانستان بینک‘‘ کے ترجمان حسیب نوری کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کے پاس غیر ملکی کرنسی کے وافر ذخائر ہیں۔حسیب نوری نے کہا کہ افغان حکومت کو گزشتہ برس سے اقوام متحدہ کی جانب سے ہر ہفتے تقریباً 40 ملین ڈالر کی انسانی امداد فراہم کر رہا ہے۔ چونکہ افغانستان عالمی بینکنگ سسٹم سے کٹا ہوا ہے، اس لیے رقم کو نقدی میں کابل منتقل کیا جاتا ہے، اور اس کے آنے کے بعد اسے مقامی کرنسی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔دا افغانستان بینک کے ترجمان نے مزید کہا کہ اگرچہ اس امداد سے طالبان کو براہِ راست فائدہ نہیں پہنچتا، لیکن بالآخر ڈالر مرکزی بینک کے خزانے میں پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ فوری طور پر تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے سابق مشیر طورق فرہادی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ افغان کرنسی مارکیٹوں میں ڈالر کی فراہمی اور اس کے بدلے افغانی کرنسی کی حمایت کرتا ہے۔اس طرح افغانی (افغان کرنسی)کی طلب دراصل اقوام متحدہ اور ڈالر کے اسمگلروں سمیت دیگر ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان کرنسی کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ افغان کرنسی کی قدر طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد دسمبر 2021 میں افغان کرنسی 124.18 کی کم ترین سطح کو چھونے کے بعد بڑھ کر تقریباً 89.96 افغانی فی ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔

اسی عرصے کے دوران پاکستانی روپے کی قدر امریکی کرنسی کے مقابلے میں تقریباً 37 فیصد کم ہوئی ہے۔ جنوری کے آخر میں اس میں ایک دن میں تقریباً 10 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جو کم از کم دو دہائیوں میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 27 جنوری کو 3.09 ارب ڈالر کی سطح تک گر گئے۔افغانستان کی وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ سال کے وسط میں پاکستان کو افغانستان سے کوئلے کی برآمدات میں اضافے کے بعد کرنسی کی اسمگلنگ کا آغاز ہوا۔ اس کو طالبان کی جانب سے پاکستانی کرنسی کو افغانستان میں قانونی ٹینڈر کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی سے بھی تقویت ملی ہے۔حاجی محمد رسول ایسے ہی ایک تاجر ہیں جو پاکستان کو کوئلہ برآمد کرتے ہیں۔جو افغان کرنسی میں کوئلہ خرید کر اسے پاکستانی روپے میں بیچتے ہیں اور اس کے بعد اسی روپے کو ڈالر میں تبدیل کرکے واپس افگانستان میں بھجوادیتے ہیں۔

حاجی محمد رسول کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈالر تلاش کرنا مشکل ہے، اس لیے وہ پشاور جیسی جگہوں پر سرحد کے قریب گرے مارکیٹس کا استعمال کرتے ہیں، جہاں وہ سرکاری شرح سے 10 فیصد زیادہ پر دالر خریدتے ہیں۔ ایسا صرف وہ نہیں بلکہ تقریباً تمام تاجر ہی کرتے ہیں کیونکہ ہمیں طالبان نے پاکستانی کرنسی ملک میں واپس لانے سے منع کیا ہے۔افغان وزارت خزانہ کے ایک ترجمان احمد ولی حقمل نے کہا کہ طالبان حکومت کسی بھی غیر ملکی کرنسی کے بجائے ڈالر کو لانے کی ترغیب دیتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ 5 ہزار ڈالر ہی افغانستان سے بھیجے جاسکتے ہیں۔ایکسچینج کمپنیز ایسویسی ایشن آف پاکستان کے محمد ظفر پراچہ کے مطابق مسئلہ پاکستان کی ”ناقص“ امیگریشن، تجارتی پالیسیوں اور بارڈر کنٹرولز کا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہیں۔ اور ان میں سے کئی ڈالر لے کر جا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے