واجبات کی عدم ادائیگی،بلوچستان کاوفاق کو گیس بند کرنے کی دھمکی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)وزیر خزانہ بلوچستان انجینئرزمرک خان اچکزئی نے واجبات کی عدم ادائیگی پر بلوچستان کی جانب سے وفاق کو گیس بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان اس وقت مشکل میں ہے، وفاق فوری مدد کرے، خیرات نہیں بلکہ اپنا حق مانگ ہے ہیں، اگر 75 ارب روپے کے بقایا جات مل جائیں تو بحران ختم ہوسکتا ہے18 ویں ترمیم کے بعد صوبے کو اختیار حاصل ہے، صوبے سے گیس سپلائی جاری ہے، بقایا جات نہیں مل رہے،پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کی جانب سے گیس کی مد میں بلوچستان کے اربوں روپے کے بقایاجات ادا نہ کرنے کی صورت میں ہم گیس کی فراہمی بند کر سکتے ہیں۔ان خیالات کااظہارانہوں نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وفاق نے بلوچستان کو نظر انداز کر رکھا ہے، سیلاب متاثرین کے لیے بیرون ممالک اور اداروں سے آنے والی امداد میں سے بلوچستان کو ایک روپیہ نہیں ملا۔این ایف سی ایوارڈ اور دوسری مدت میں مختص حصہ نہ دینے کی وجہ سے بلوچستان مالی بحران کا شکار ہو گیا ہے، صوبے میں ترقیاتی کام رک گئے ہیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاق گوادر، ریکوڈک اورسیندک سمیت سارے منصوبے بھی زبردستی لے جا رہا ہے اوراگر معاوضہ بھی نہیں دیتا تو یہ ناجائز ہوگا۔صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے گیس کے ذخائر نکالنے والی سرکاری کمپنی پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) پر بلوچستان حکومت کے 30 ارب روپے سے زائد کے واجبات ہیں لیکن کمپنی بلوچستان حکومت کے اصرار اور بار بار مطالبے کے باوجود بقایا جات ادا نہیں کر رہی۔پی پی ایل کو ہم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم معاہدہ ک رلیں گے اس میں کوئی دوسری بات نہیں صرف کاغذی دستخط باقی ہے۔گیس کی فراہمی بند کرنے کے سوال پر صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم کر سکتے ہیں ہم سب کچھ کرسکتے ہیں اگر ہم کرنا چاہیں۔ لیکن ہم ایک روایتی لوگ ہیں ہم آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی بھی چاہتے ہیں ہم جمہوری لوگ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہم وفاق کو کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ہم وفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اکائیاں مضبوط ہوں گی تب وفاق بھی مضبوط ہوگا۔ اگر ایک اکائی ایک بھی کمزور ہوگی تو آپ کی فیڈریشن بھی کمزور ہو جائے گی۔صوبائی وزیر زمرک اچکزئی کے مطابق پیسے نہ ملنے کی وجہ سے صوبے کی ترقی بالکل رک گئی ہے اور کسی چیز پر توجہ نہیں دے سک رہے۔انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے600 ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں 380 ارب روپے تنخواہوں، پنشن اور غیرسرکاری اخراجات پر خرچ ہوتے ہیں۔ باقی 192 ارب روپے کے لگ بھگ ترقیاتی بجٹ ہے، بجٹ میں پہلے سے 80 ارب روپے کا خسارہ ہے۔بلوچستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، ہر شعبہ متاثر ہوا، نصیرآباد ڈویژن مکمل ڈوب گیا۔ لوگوں کی امداد اور بحالی کے کاموں پر خطیر رقم خرچ ہونے کی وجہ سے صوبے پر مالی بوجھ بڑھ گیا۔ دوسری جانب وفاق سے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت مختص9.9 فیصد حصے میں سے کٹوتی کی جا رہی ہے۔صوبائی وزیر زمرک اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم خیرات نہیں مانگ رہے، اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں جو آئین و قانون نے ہمیں دیا ہوا ہے جبکہ این ایف سی کے حصے میں سے بار بار کٹوتیاں ہورہی ہیں۔اگر ایک ارب روپے حصہ بنتا ہے تو 70 یا 80 کروڑ روپے بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ باقی بعد میں بھیجیں گے، کیوں؟ ہمیں اپنی قسط چاہیے ہمارا اپنا حصہ چاہیے۔صوبائی وزیر خزانہ کے مطابق پچھلے سال کے این ایف سی میں سے بلوچستان کو اپنے حصے سے11 ارب اور رواں مالی سال میں اب تک 27 سے30 ارب روپے سے کم ملے ہیں۔ اسی طرح وفاقی حکومت کے اعلان کردہ منصوبوں پر بلوچستان حکومت نے پانچ سے چھ ارب روپے خرچ کیے وہ رقم بھی اب تک واپس نہیں ملی۔سیلاب متاثرین کے لیے بیرون ملک سے آنے والی امداد میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا، وفاق نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ جون سے لے کر اب تک مسلم اور یورپی ممالک اور عالمی اداروں نے جتنی مدد کی، ریکارڈ اٹھالیں میں دعوے سے کہتا ہوں بلوچستان کو ایک روپیہ نہیں ملا۔صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بلوچستان کو 10 ارب روپے دینے کا اعلان کیا لیکن اب تک ایک روپے نہیں آیا، اگر بیرون ملک سے امداد آئی ہے تو کدھر گئی ہمیں پتہ نہیں یہ امداد کس طرح خرچ ہوتی ہے۔وزیراعظم بلوچستان آکر اعلان کرتے ہیں، ہم وزیراعظم کی لاج رکھتے ہوئے ان کے اعلان کردہ منصوبے پر رقم خرچ کرتے ہیں لیکن وہ رقم بھی واپس نہیں ملتی۔صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی آمدن بڑھائی ہے، ٹیکس نافذ کیے لیکن ہماری آمد اتنی نہیں کہ صوبہ خود سنبھال سکیں، فیڈریشن کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جو صوبہ کمزور ہو اس کی معاونت کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاق مدد نہیں کرتا تو ہم خود بھی صوبہ چلاسکتے ہیں۔ہمیں گوادر، ریکوڈک، سیندک منصوبے اپنے ہاتھ میں دے دیے جائیں تو ہم پورا ملک چلا کر دیں گے۔ لیکن اگر زبردستی ہم سے ہماری چیزیں بھی لیے جا رہے ہیں اور ہمیں حصہ بھی نہیں دے رہے تو پھر تو یہ ناجائز ہے۔ ہمارے پاس تو سب کچھ ہے لیکن ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ ہم اسلام آباد جا کر بار بار اپیل کرتے ہیں کہ ہمارا حصہ دیں۔ احسن اقبال صاحب سے دو مرتبہ ملاقات کی اور ہم وفاقی سیکریٹری خزانہ سے بھی ملے اور ان سے درخواست کی لیکن جب ہم واپس کوئٹہ آجاتے ہیں تووہ اپنے آپ میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ ہمیں بھول جاتے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے اہم صوبہ ہے لیکن اس صوبے کو یہ لوگ بھول جاتے ہیں، سمجھ نہیں آرہا کہ یہ بلوچستان کو کیوں اہمیت نہیں دے رہے۔