بلوچستان میں گندم کااسٹاک ختم ہوگیاہے،وفاق بلوچستان کی مدد کرے بصورت دیگر کابینہ اور اسمبلی ارکان کے ہمراہ احتجاج کرینگے،زمرک اچکزئی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)صوبائی وزیر خوراک وخزانہ انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاہے کہ بلوچستان میں گندم کااسٹاک ختم ہوگیاہے،وفاق،پنجاب اور سندھ مشکل حالات میں بلوچستان کی مدد کرے بصورت دیگر وفاق اور پنجاب کے سامنے کابینہ اور اسمبلی ارکان کے ہمراہ احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے، آدھے سے زیادہ گندم سیلاب میں خراب ہوگئی جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوگئی،یوٹیلٹی سٹورز کو 40لاکھ بوری گندم ملتی ہے اس میں بلوچستان کا حصہ کہاں ہے؟ کہاں استعمال ہوتاہے؟بلوچستان کے پاس سبسڈی کیلئے رقم نہیں،وفاق پر این ایف سی کی رقم واجب الادا ہے لیکن وہ دینے کیلئے تیار ہی نہیں،پنجاب وسندھ سے کاروبار کیلئے گندم کی ترسیل پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جو نیک شگون نہیں،تمام تر وسائل کا مالک صوبہ آج آٹے بحران کاشکار ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ میں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کے حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ پنجاب کی جانب سے گندم کی فراہمی کا جو وعدہ کیاگیا وہ پورا نہیں ہوا بلوچستان کے ساتھ صرف وعدے ہوتے ہیں پورے نہیں کئے جاتے جس کے بعد ہم نے وفاق سے مطالبہ کیاکہ بلوچستان میں آٹے کا بحران ہے مدد کی جائے جس پر پاسکو نے 2لاکھ بوری کا وعدہ کیا اور یہ اکتوبر میں پہنچ گیا ستمبر سے کل 5لاکھ بوری کا ذخیرہ تھا محکمہ خوراک نے 5لاکھ بوری 4ماہ تک فلورملز مالکان کے ذریعے ہر ضلع تک پہنچائی،جب سے ذخیرہ ختم ہوا تو بحران مزید شدت اختیار کرگیاہے،وزیراعلیٰ بلوچستان ان بورڈ تھے،میرعبدالقدوس بزنجو نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہم نے ضلعی انتظامیہ،ودیگر کی مدد سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی شروع کی بلوچستان میں اتنے ذخیرہ اندوز نہیں اصل وجہ سندھ،پنجاب اور وفاق ہے جن کے پاس ذخیرہ بھی موجود ہے انہوں نے بلوچستان کو گندم دینے سے انکار کردیاہے پنجاب سے بلوچستان گندم نجی طورپر لانے پر بھی پابندی عائد کردی،85فیصد دارومدار سندھ وپنجاب پر ہے دونوں صوبوں نے گندم بند کرکے بلوچستان کے لوگوں پر آٹے کی پابندی سے بحران مزید شدت اختیار کرگیاہے،ہم وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ پنجاب اور سندھ سے مطالبہ ہے کہ وہ بلوچستان کے لوگوں کو تنہا نہ چھوڑیں،ہمیں 3سے 4لاکھ گندم بوری مارچ تک چاہیے،یہ اتنی بڑی ڈیمانڈ نہیں ہے پاسکو ہمیں لوکل قیمت پر گندم فراہم کرے،ہمارے پاس سبسڈی کیلئے رقم نہیں ہے خزانہ خالی ہے،این ایف سی کا30ارب بقایا ہے پرسوں پلاننگ کمیشن کے وزیر کے ساتھ ملا فنانس سیکرٹری کے ساتھ ملا پی پی ایل کے ساتھ ملا ہمیں پروٹیکٹڈ رقم نہیں دی جارہی،بریج فنانسنگ میں ہمارے 6ارب روپے نہیں دئیے جارہے،بلوچستان حکومت کے پاس 2ارب روپے کی بھی سبسڈی دینے کی طاقت نہیں ہے،ہم اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں پرانے قیمت پر 4لاکھ بوری فراہم کی جائیں دوماہ سخت سے سخت بحران بلوچستان میں رہے گا،بلوچستان کی عوام کی طرف سے اپیل ہے کہ سخت حالات میں وفاق وپنجاب اکیلا نہ چھوڑیں مزید بھی چھاپوں کا سلسلہ جاری رہے گا،گندم کا ذخیرہ کرنے کا کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی،وفاق کوچاہیے کہ وہ این ایف سی کی رقم ٹرانسفر کرے پچھلے 11ارب روپے پروٹیکٹڈ اماؤنٹ رہ رہی ہے،پیٹرولیم وزارت پر 30ارب واجب الادا ہے،اگر ہمیں مزید رقم نہیں دی جاسکتی توہمیں ہمارا حصہ دیاجائے،ہم وفاق اور پنجاب دونوں کے سامنے بشمول اپنی کابینہ احتجاج کرینگے،بلوچستان کو سخت حالات میں مدد کی ضرورت ہے،انہوں نے کہاکہ یوٹیلٹی سٹورز کو 40لاکھ بوری گندم ملتی ہے اس میں بلوچستان کا حصہ کہاں ہے؟ کہاں استعمال ہوتاہے؟ یہ آتا بھی ہے یا نہیں اگروہ ملے تو بھی بحران پر ایک حد تک قابو پانے میں مدد ملے گی،امیر صوبہ ہونے کے باوجود غربت کی زندگی گزاررہے ہیں،بلوچستان وفاق کو گیس،گوادر بندرگا،ریکوڈک، سیندک، کرومائیٹ،کوئلہ جیسے وسائل دئیے ہیں اگر ہمارا ساتھ نہ دیاگیا تو ہم احتجاج کو اسلام آباد تک وسعت دی جائے گی،انہوں نے صحافیوں کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہاکہ محکمہ خوراک کا ایک بوری خراب نہیں ہوا نہ ہی مارکیٹ میں غلط طریقے سے گیاہے،ہمارے پاس جو گندم تھی وہ ہم نے مارکیٹ تک پہنچادیا،آدھے سے زیادہ گندم سیلاب میں خراب ہوگئی جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوگئی،انہوں نے کہاکہ پاسکو نے کہاکہ 4لاکھ بوری جس میں دو لاکھ لوکل اور دو لاکھ امپورٹڈ دیں گے،امپورٹڈ گندم کوالٹی اور قیمت میں مختلف ہے اور مہنگی ہے،ہمارے پاس سبسڈی نہیں اگر ہم 8ہزار کی خریداری کرے تو چارجز کے ساتھ9ہزار تک پہنچ جاتی ہے،پاسکو کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے مدد کی،ہمارے پاس اسٹاک ختم ہوگیاہے دو لاکھ کی خریداری کی ہے جس میں دس ہزار پہنچ گئی ہے،بلوچستان کو ماہانہ ساڑھے 12لاکھ گندم بوری کی ضرورت ہے کوئٹہ میں ڈھائی لاکھ ماہانہ ضرور ت ہے سب سے زیادہ آبادی کوئٹہ اورپشین میں ہے،گندم مل جائے تو مارچ تک صوبے کو چلایاجاسکتاہے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے