شہید بے نظیر بھٹو کی زندگی اور سیاست پر ایک نظر

لاڑکانہ(ڈیلی گرین گوادر) مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید کی برسی آج منائی جارہی ہے۔صرف 35 سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ کے اہم ترین منصب تک پہنچنے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون بینظیربھٹو جمہوریت کیلئے جدوجہد کا استعارہ تھیں، بینظیربھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد انتہائی مشکل حالات میں پارٹی کی باگ ڈورسنبھالی اور آمریت کا ڈٹ کرمقابلہ کیا، اگرچہ بینظیردو مرتبہ وزیراعظم رہیں لیکن انہوں نے نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ جلا وطنی بھی کاٹی۔

محترمہ فاطمہ جناح کے بعد بینظیر بھٹو وہ واحد خاتون رہنما تھیں جنہوں نے خواتین کوعملی سیاست میں آنے کاحوصلہ دیا اور اسمبلی کے ایوانوں تک پہنچایا۔محترمہ بینظیر بھٹو 1988 سے 1990 کے دوران پہلی مرتبہ وزیراعظم بنیں، اگست 1990 میں ان کی حکومت کو برطرف کردیا گیا، بینظیر بھٹو 1993 سے 1996 تک دوسری بار وزیراعظم پاکستان رہیں، 1996 میں دوسری بار انکی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔

انہیں جنرل ضیا نے نظر بند کر دیا، ان کی رہائی کے لیے جنرل ضیا پر بین الاقوامی دبا ؤ بڑھتا رہا، مختصر وقفوں کے لیے انہیں رہا کیا جاتا مگر پھر نظر بند کر دیا جاتا، 1984 میں بے نظیر بھٹو کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت ملی، وہ 1981 سے مسلسل نظر بند تھیں۔1985میں بے نظیر اپنے بھائی شاہ نواز کی میت کے ساتھ پاکستان آئیں تو انہیں ایک بار پھر نظر بند کر دیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد انہیں دوبارہ جلاوطن کر دیا گیا، مارشل لا کے خاتمے کے بعد 1986 میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں ، ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ 1998 میں وہ دوسری بار جلا وطن ہوکر ملک سے چلی گئیں۔

بینظیر بھٹو نے 18 اکتوبر 2007ء کو 9 سال جلاوطنی ختم کرکے وطن واپسی کا فیصلہ کیا، کراچی ایئرپورٹ پر لاکھوں لوگوں نے انکا شاندار استقبال کیا گیا اور انہیں ایک بڑے جلوس کی شکل میں لے جایا جارہا تھا کہ کارساز کے قریب انکے قافلے پر خودکش حملہ کردیا گیا جس میں میں بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں لیکن سیکڑوں جیالوں کی جانیں چلی گئیں۔سانحہ کارساز کے بعد بھی بینظیربھٹوخطرات کوخاطرمیں نہ لائیں، موت کوانتہائی قریب سے دیکھنے کے باوجود سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں یہی وہ جرات تھی جس نے بے نظیر کو ہمیشہ کیلئے امر کردیا۔27 دسمبر 2007 کو میدان سیاست کا یہ تابندہ ستارہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا، 15 سال گزرنے کے باوجود آج تک بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا معلوم نہیں ہوسکا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے