مذہبی معاملات سے نمٹنے کا اختیار صرف ریاست کو ہونا چاہیے، سپریم کورٹ
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ نے مبینہ طور پر توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے والے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے پر توہین مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزم کی ضمانت منظور کر لی اور مشاہدہ کیا کہ مذہب سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے لیے افراد کے بجائے صرف ریاست کو اختیار ہونا چاہیے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشاہدہ کیا کہ ریاست کو مذہبی معاملات پر خود کو افراد کے حوالے نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسے حساس معاملات میں ریاستی مشینری کو انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔
ضمانت کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم اپنا دفاع کیسے کرے گا جب اسے جرم کی نوعیت کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں ہے۔عدالت نے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ کیس میں مزید انکوائری کی ضرورت ہے۔
ایف آئی اے نے بعد میں اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) سے رائے طلب کرنے کے بعد تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295۔سی کو چالان سے خارج کر دیا تھا۔سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور مشاہدہ کیا کہ جب ملزم کو الزامات کی نوعیت کا علم ہی نہیں تو وہ اپنا دفاع کیسے کرے گا۔
سپریم کورٹ، ایف آئی اے کی ٹیم کی جانب سے جس طرح سے انکوائری کی گئی اس سے بھی خوش نہیں اور انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ تحقیقات اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہی کہ آیا شکایت کنندہ عربی زبان سے اچھی طرح واقف تھا یا نہیں کیونکہ سوشل میڈیا گروپ پر پوسٹ کیا گیا قابل اعتراض متن عربی زبان میں تھا۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کے خلاف الزامات عائد کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو مدنظر نہیں رکھا گیا، عدالت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئینی ادارے کی رائے پر عمل نہ کیا جائے تو سی آئی آئی کا کیا مقصد ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ کیس سیکشن 295۔سی کے زمرے میں نہیں آیا اس لیے ایف آئی اے نے اس دفعہ کو شکایت سے خارج کر دیا تھا۔