بلو چستان کے عوام اپنے قیمتی وسائل، دولت پر غیر ملکی یا ملکی تسلط اور اجارہ داری قبول نہیں کریں گے، امان اللہ کنرانی
کوئٹہ/اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر وسینیٹر (ر) امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ بلو چستان کے عوام اپنے قیمتی وسائل، دولت پر غیر ملکی یا ملکی تسلط اور اجارہ داری قبول نہیں کریں گے،ریکوڈک پراجیکٹ کو کسی مسابقتی عمل سے گزار سے بغیر یکطرفہ طوپر ایک من پسند کمپنی کو بلو چستان کے وسائل حوالہ کر نا نو آبا دیاتی ذہنیت کا آئنہ دار ہے،نسلوں کی قسمت کا فیصلہ چند کوڑیوں کے عوض عجلت میں نہیں کیا جائے۔یہ بات انہوں نے صحا فیوں سے بات چیت کر تے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے جفرافیہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ معدنیات سے مالامال، ساحل کی 780کلو میٹر طویل پٹی اور دو بین الالقوامی سر حدوں کے ساحل وفا ق کا اہم اکائی بلو چستان ایک دفعہ بھر وفاقی کے یلغار کا شکار ہے جس کے لئے پاکستان کے عدالت عظمی کے کندھوں کو استعمال کر کے 18ویں آئینی ترمیم اور صوبائی خود مختاری پر ضرب لگانے کی تیاری ہو رہی ہے جس کے خلاف بلو چستان کے عوام اور وکلاء ہر محاذ پر سینہ سپر ہیں اس لئے بلو چستان بار کونسل نے میرے توسط سے بلو چستان کے قیمتی معدنیات، دھاتوں کے ذخائر ریکوڈک کے بارے میں صدارتی ریفرنس 2میں فریق بننے کا فیصلہ کر تے ہوئے یکم نومبر 2022کو سپریم کورٹ پاکستان کے فل بینچ کے سامنے فریق بننے کی استدعا کی جسکو قبول کر لیا گیا مگر ایک ماہ گزرنے اور باربار بینچ کو توجہ دلا نے کے باجود ہمیں ریفرنس کے دستاویزات مہیا نہیں کی گئیں حتیٰ کہ 28نومبر 2022کو بینچ کے سربراہ چیف جسٹس نے اگلے دن دستاویزات مہیا کر نے کا حکم دیا اور مجھے یکم دسمبر 2022کے روز بحث کی اجازت دی میں کوئٹہ سے دوپہر کی فلائٹ لیکر اسلام آباد پہنچا مجھے بتایا گیا دستاویزات حوالے کر دی گئیں تاہم کیس پر فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے مجھ سے بحث تحریری داخل کر نے کا کہا گیا جو میرے لئے نہایت دکھ اور جبر کے برابر ہے اس کاروائی کے دوران ایک دن بینچ کے ایک ممبر نے کہا کہ آپ کی تفصیلی باتیں ایک کتاب میں لکھی جا سکتی ہیں مگر عدالت میں نہیں میں جج کو بتانا چاہتا ہوں کہ بلو چستان کے معروضی حالات کے تناظر "میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا "کی طرح "میں نے بلو چستان ڈوبتے دیکھا "لکھنے کا شوق نہیں۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس سا ل دو فر مائشی صدارتی ریفرنس داخل ہوئے ایک میں آئین کا حلیہ بگاڑ کر اپنی مطلب، مر ضی کی تشریح کر کے ملک میں عدم استحکام اور انتشار پیدا کر دیا گیا اب دوسرے حالیہ صدارتی ریفرنس نمبر 02/2022کے ذریعے بلو چستان کے معاشی معدنی وسائل ذرائع کو ایک اور "ایسٹ انڈ یا کمپنی "کے طرز بیرونی کمپنی کے حوالے کئے جا رہے ہیں جس کے پیچھے براڈ شیٹ ڈیل کے محرکات اثرات اور گینگ کے کر دار کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس صدارتی ریفرنس کی آڑ میں سپریم کورٹ کے ذریعے صوبائی خود مختاری اور اٹھاویں ترمیم کے اثرات کو زائل کر کے ایک خاص مقتدر طبقہ کے خواہش کی تکمیل کی جا رہی ہے جنہوں نے پہلے دس سال قبل ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو سندھ کے تھر کول اور بلو چستان کے ریکوڈ ک پرو جیکٹ بالخصوص تنجیل H/04پر مسلط کر دیا گیا اور اربوں روپے کا بلو چستان حکومت کو ٹیکہ لگا یا گیا اب ایک بار پھر یو ٹرن لیتے ہوئے انہیں مسترد شدہ غیر ملکی کمپنیوں کو دوبارہ مسلط کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے PLD2013S.C641کو کوڑے دان میں ڈال کر آئین کے آرٹیکل 4,5,9,10-A,175/189کی صر یحا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 186ایک مشاورتی فورم ہے جس کے ذریعے عدالت فیصلوں کو نظر انداز، بالائے طاق یا مسترد یا ترمیم و اضافہ نہیں کر سکتے بالخصوص اس مقدمہ کے اندر مقامی افراد، قبائل کے ملکیتی حقوق کا تحفظ کا سوال شامل ہے مگر اس آئینی فورم کے ذریعے غیر ضروری، غیر آئینی طریقے سے حکومت اپنی بدو یا نیتی پر عدالتی مہر لگانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلو چستان کے عوام اپنے قیمتی وسائل، دولت پر غیر ملکی یا ملکی تسلط اور اجارہ داری قبول نہیں کریں گے، عدالت کو ایک موقع پر بتا گیا کہ بیرک گولڈ کے علا وہ اور کو ئی کمپنی نہیں جو ریکوڈک منصوبے پر کام کر سکے حالانکہ تین سے زائد کمپنیاں حکومت کو اب بات پیشکش کر چکی ہیں جس میں سے ایک کی پیشکش کی تقو لات پیش پیش ہیں جو کینڈا، امریکہ اور سویڈن سے تعلق رکھتی ہیں موجودہ کمپنی بیرک گولڈ جس نے ماضی میں ٹی سی سی کے ذریعے ریکوڈ ک پروجیکٹ میں 100کلو میٹر کے بجائے پانچ کلو میٹر کی فز یبلیٹی رپورٹ دی جو پندرہ Holeمیں سے صرف دوH-14اورH-15سے تعلق رکھتے ہیں مگر حالیہ ایگر یمنٹ کے ذریعے وہ پانچ کلی میٹر کی بجائے 167کلو میٹر طلب کر رہی ہے معدنی قوانین کے اندر ریو نیو کے قانون کو پامال نہیں کیا جا سکتا جس سے لوگوں کے مالکانہ حقوق پر معاشی تر جیحات کے نام سمجھو تہ کیا جا رہا ہے جو آئین کے آرٹیکل 4,9,10-A,18,24,25کی صریحاً خلاف وزری و حقوق پر ڈاکہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریکوڈک پراجیکٹ کو کسی مسابقتی عمل سے گزار سے بغیر یکطرفہ طوپر ایک من پسند کمپنی کو بلو چستان کے وسائل حوالہ کر نا نو آبا دیاتی ذہنیت کا آئنہ دار ہے جبکہ شفاف عمل کو بروئے کار لانا سپریم کورٹ کے اپنے احکامات اور آئین کا لازمی تقاضا ہے نہ صرف یہ بلکہ کمپنی سارے مواد ORE/اور کو بلو چستان اور ملک سے باہر لے جا کر صوبے کے عوام کو اندھیرے میں رکھیں گے جیسے بلو چستان سوئی گیس سے مہیا کی جا نے والی گیس کی مقدار کا بلو چستان حکومت کو کچھ بھی علم ہے اور نہ اسکا کوئی طریقہ کار مروجہ ہے حکومت دو کمپنیوں ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی پی ایل کے اعداد وشمار اور معلومات پر انحصار کرتی ہے جس پر شدید تحفظات ابھی تک دور نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ نسلوں کی قسمت کا فیصلہ چند کوڑیوں کے عوض عجلت میں نہیں کیا جائے اس معاہدے کے اندر ایک کمپنی جو بلو چستان حکومت کے علا وہ دوسرے جوشاید 15فیصد حصہ دار بنتے کا حقدار بنایا گیا ہے اسکی تحقیقات کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈک جو سونا، چاندی، تانبا، ایٹمی پروگرام کے لئے استعمال ہونے والا مواد اور ہیرے سے قیمتی معدنیات و دھا توں کی موجودگی کے امکانات روشن ہیں اس لئے دو دنیا کے دوسرے بڑے اس ذخیرے کو دریافت کر نے کے بجائے سی اے پی کر نا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلو چستان کے عوام اپنے ساحل وسائل اور شناخت کے تحفظ کے لئے پہلے سر گرام ہیں عدالتی احکامات ایک بار بھر جسٹس منیر کے فیصلوں کی نظرئیہ ضرورت کو زندہ کریں گے جس کے نتیجے میں وفا ق پاکستان دولخت ہوا اسکے زہر یلے اثرات بھی خدانخواستہ ایسے نہ ہو ہم دشمن کا دانستہ یا نا دانستہ طور پر آلہ کار بن جائیں۔ انہوں نے کہاکہ اس صدارتی ریفرنس کو مسترد کر کے ریکوڈ کے مسقتبل کا فیصلہ بلو چستان اسمبلی کے توسط سے ہوا اور اسکے اندر مسا بقتی عمل کا آغاز کر تے ہوئے شفاف طریقے سے صوبے کے عوام اور ملک کے مفادکا تحفظ کیا جائے۔