ہمیں روڈ نالی سڑک ٹھیکہ کمیشن سے کوئی سرو کار نہیں، نیشنل پارٹی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے باپ پارٹی کے خالق جماعت بی این پی مینگل کے گزشتہ روز کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل پارٹی پر بلاجواز کی تنقید دراصل فواد چوہدری کے بیان کا نتیجہ ہے ان لوگوں نے اسلام آباد میں بلوچستان کے سیاسی مقام کی اتنی بے توقیری کی ہے کہ کھبی شیخ رشید ان پہ انگلی اٹھاتا ہے کھبی فواد چوہدری تو کبھی کالے رینج روور کا زکر زبان زدعام ہوتا ہے اس میں نیشنل پارٹی کا کیا قصور ہے۔ پارٹی ترجمان نے مجموعی عوام بی این پی سے سوال کررہے ہیں کہ انتخابات کے دوران عوام سے وعدہ کیا گیا کہ ہمیں روڈ نالی سڑک ٹھیکہ کمیشن سے کوئی سروکار کار نہیں کامیاب ہوکر آپ کے پیاروں کو بازیاب کرائیں گے اب ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ مسنگ پرسنز کے قائم کمیشن کا چیئر مین خود اختر مینگل ہیں بجائے اس کے کہ مسنگ پرسنز بازیاب ہوں بولان سے خواتین لاپتہ ہورہے ہیں وفاقی حکومت میں وزارتوں پر براجمان ہیں جبکہ بلوچستان میں قدوس بزنجو کے ساتھ سائلنٹ پارٹنر ہیں۔قدوس بزنجو کا ماتھا چوم کر کرسی پر بٹھایا اپنا پراسیکیوٹر بھرتی کرویا اور ساتھ میں یہ راگ بھی الاپ رہے ہیں کہ ہم گناہ میں شامل نہیں یہ ان کا وطیرہ ہے کہ روز اول سے گناہ کرکے بے گناہی ثابت کرنے کے لئے بھڑک بازی کا سہارا لیتے ہیں ایٹمی دھماکے کے موقع پر پاہیلٹ کا کردار ادا کیا پھر ایٹمی دھماکوں کے خلاف پونم میں تقریریں کرنے لگے۔ تین سال باپ پارٹی کے ساتھ مل کر عمران نیازی حکومت کا حصہ دار رہا کھبی چھ نقاط کھبی گیارہ نقاط کا راگ الاپتا رہا لاپتہ افراد پہ بھڑک بازی کرکے دس ارب کے فراڈ اسکیم لیکر ٹھیکہ و کمیشن پہ دست و گریبان ہوئے اور ایک دم سے چھلانگ لگا کر میر حاصل بزنجو مرحوم کے تشکیل کردہ پی ڈی ایم میں شامل ہوکر یہاں گلہ پھاڑنے لگے اور یہ بھول گئے کہ جس نیازی کے خلاف گلہ پھاڑ رہے ہیں ان کو ووٹ دی ان کے چیئرمین سینٹ کو ووٹ دیا ان کے ہر قسم کی قانون سازی میں شریک رہے آرمی چیف کو ایکسٹینشن کا ووٹ دیکر گوادر بچانے کی نوید سنائی یہ سب ایسے بھول گئے جیسے ایک نئی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ پارٹی ترجمان نے واضع کیا ہے کہ ان کی مثال اس آبی مرغے کی ہیے جو دن رات پانی میں ہونے کے باوجود اس کے پر گیلے نہیں ہوتے۔روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 2018 میں ثنا اینڈ کمپنی کے ذریعے اختر اینڈ کمپنی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ الیکش ڈیل کی جس کا آغاز سردار ثنااللہ کے خلاف عدم اعتماد اور قدوس بزنجو کو لانچ کرنا اورلشکر بلوچستان کو سرنڈر کرنا اس ڈیل کا حصہ تھا اور یہ بھی اس ڈیل کا حصہ تھا کہ ایک فریق اسمبلی میں بلوچستان کی محرومیوں کا رونا روئے گا لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بھڑک بازی کریگا مگر کاروبار وٹہ سٹہ کا ہوگا ایک بازیاب کرینگے تین لاپتہ کیا جاپیگا دونوں کا کاروبار چلتا رہے گا۔ پارٹی ترجمان نے کہا ہے کہ اپنے بیان میں بی این پی مینگل نے جس بزرگ سیاستدان کا زکر کیا ہے یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ 1988 میں ان کا لیڈر محض دو کان کے ساتھ اکلوتا بلوچستان آیا اس بزرگ سیاستدان نے انہیں اپنی پارٹی میں جگہ دی تو سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس پیر مرد کے پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ان کی پارٹی کو توڑا اور اپنا گروہ تشکیل دیا اسی طرح پی این پی کے ساتھ انضمام کرکے ایک حصہ وہاں سے نکال کر اپنی پارٹی بنالی یہ کو ئی جماعت نہیں چھاپہ مار سیاسی مافیا ہے۔ جام حکومت میں اسمبلی کے اندر جو گملہ باری کی گئی بعد ازاں تھانے میں بیٹھ گئے وہ گملہ باری نہ لاپتہ افراد کے لیئے تھا نہ بلوچستان کے لیئے اور جس ٹینکی لیکس کا زکر اپنے بیان میں کیئے ہیں اسی ٹینکی لیکس کے پیسوں کا سجی تھانہ میں نوش فرمائے اور بلوچستان یونیورسٹی حراسگی کیس میں ان کے ایم پی ایز نے دو دو پوسٹ لیکر معاملے پر مجرمانہ طورپر مٹی ڈال دیا۔آج سی ٹی ڈی کے ذریعے سینکڑوں نوجوانوں کو لاپتہ کرایا جارہا تاکہ ان کو بھڑک بازی کا موقع ملتا رہے اور اختر اینڈ کمپنی تندوتیز تقاریر کرکے قیمتی گاڑیاں گفٹ لیتا رہے حالانکہ سی ٹی ڈی اس وزیر اعلی کے ماتحت ہے جس کے ماتحت اس بھڑک باز جماعت کا پراسیکیوٹر جنرل ہے۔اس بھڑک بازی پر شہید نواب بگٹی نے ان کو کاغذی شیر اور گفتار کے غازی کا لقب دیا تھا۔ نیشنل پارٹی کے ترجمان نے واضع کیا ہے کہ یہ انیسویں صدی نہیں کہ کمیشن بھی لیں اسٹیبلشمنٹ کا بی ٹیم بھی بن جاہیں اور پروفیشنل پیشوا بن کر تندوتیز تقاریر سے لوگوں کا ورغلاہیں یا منافقت اور دروغ گوئی کرکے بلوچ نوجوانوں اور بلوچ سیاسی قیادت کو دست و گریباں کریں یہ کام 2007 سے 2011 تک اختر اینڈ کمپنی نے بخوبی سرانجام دیا اب یہ کمپنی نہیں چلے گی۔