آئین نے ہر شخص کو انصاف تک رسائی کاحق دیا ہے،سپریم کورٹ
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین نے ہر شخص کوانصاف تک رسائی کاحق دیا ہے۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ قواعد میں نرمی خلاف قانون کی گئی،عدالت نے قرار دیا کہ بین الاقوامی کمپنی کیلئے رولز میں نرمی کا اختیار نہیں تھا۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ حکومت اربوں کی سرمایہ کاری پر انیس سو ستر کے قوانین کیوں لاگو کرنا چاہتی ہے ، نئے قواعد و ضوابط کیوں نہیں بنا لیتی ، بلوچستان حکومت نے کان کنی سے متعلق نئے قوانین بنائے یا نہیں ؟ کیا اب بھی رولز وہی ہیں یاترمیم ہوچکی؟
جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکوڈک سےمتعلق قانون میں ترمیم ہوچکی ہے،نئے قانون کے مطابق حکومت رولزمیں ترمیم کر سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ رولز میں نرمی ہو تو بھی شفافیت لازمی ہے۔عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ ریکوڈک سےنکالی گئی معدنیات میں وفاق پاکستان کا حصہ 50 فیصد ہوگا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ حصہ جتنابھی ہے لیکن قانون پرعمل کرنالازمی ہے۔
جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جا رہا، ریکوڈک معاہدہ ماضی کےعدالتی فیصلےکو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا، ماہرین کیمطابق ریکوڈک پرموجودہ حالات میں اس سے اچھا معاہدہ ممکن نہیں تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو 9 ارب ڈالر سے زائد ادا کرنا ہوں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدارتی ریفرنس میں صرف آئینی سوالات کا ہی جائزہ لیا جا سکتا ہے، عدالتی دائرہ اختیار پوچھے گئے سوالات تک محدود ہوتا ہے، سیاسی اور معاشی نوعیت کے سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ انصاف تک رسائی آئینی تقاضا ہے، آئین نے ہر شخص کو انصاف تک رسائی کاحق دیا ہے۔ بین الاقوامی معاہدے سےکوئی تیسرا فریق متاثر ہو تو کیا اس کی حق تلفی نہیں ہوگی؟سپریم کورٹ نے کیس میں سلمان اکرم راجہ، فروغ نسیم اور زاہدابراہیم کوعدالتی معاون مقرر کر دیا جب کہ بلوچستان بار کو بھی معاونت کیلئے نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔