سی ٹی ڈی نے سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا ہے،ڈی آئی جی اعتزاز گورایہ

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)ڈپٹی انسپکٹر جنرل محکمہ انسداد دہشتگردی بلوچستان اعتزاز گورایہ نے کہا ہے کہ سی ٹی ڈی نے سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم شفقت اللہ کو گرفتار کرلیا ہے، ملزم کا تعلق کالعدم تنظیم بی ایل اے سے ہے،سی ٹی ڈی نے ایک سال میں 666افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 121کو سزائیں ہیں،لاپتہ افراد کی جانچ پڑتال کے حوالے سے باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے کسی بھی مقابلے میں لاپتہ افراد کے مارے جانے کی تفصیلات نہیں ہیں،بلوچستان میں داعش کا کیمپ موجود نہیں تاہم انکے لوگ یہاں ضرور موجود ہیں، زیارت سے اغواء ہونے والے ایف سی اہلکار اور کاروباری شخص کی تلاش جاری ہے اس حوالے سے قیدیوں کے تبادلے کی اطلاعات کی کوئی خبر نہیں ہے۔یہ بات انہوں نے ہفتہ کو آئی جی پولیس کے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ ڈی آئی جی اعتزاز گورایہ نے کہا کہ 14اکتوبر کو سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ محمد نور مسکانزئی کو خاران میں مسجد کے اندر شہید کیا گیا جس کی ذمہ داری کالعد م تنظیم بی ایل اے نے قبول کی تھی واقعہ کی تحقیقات کے لئے قائم جے آئی ٹھی نے جیوفنسنگ، جائے وقوعہ کا جائزہ لینے اور ڈیٹا اکھٹا کرنے کے بعد خاران میں کاروائی کرتے ہوئے ملزم شفقت اللہ عرف دلاور/سرچار ولد عبدالرحیم یلانزئی کو گرفتار کیا اور اسکی تحویل سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ ملزم نے دوران تفتیش دہشتگردی اور کالعدم تنظیم بی ایل اے سے وابستگی کی تصدیق اور تنظیم کے مختلف دہشتگردوں اور نیٹ ورکس کے متعلق اہم انکشافات کئے ہیں ملزم نے 2021میں ایف سی چیک پوسٹ وڈھ خاران میں ہینڈگرینڈ لانچر حملے، چیف چوک میں موٹر سائیکل میں نصب آئی ای ڈی دھماکے جس میں 13افراد زخمی ہوئے، جسٹس (ر) محمد نور مسکانزئی کے بھائی بلا ک بنانے والی فیکٹری میں دو پنجابی مزدوروں پر فائرنگ کر کے زخمی کرنے، حساس ادارے کے دفتر پر کلاشنکوف کے ذریعے ہینڈ گرینڈ لانچر حملے، 2022میں دوبار پولیس تھانہ سٹی خاران پر ہینڈ گرینڈ حملے،2022میں کوئٹہ میں لیویز ہیڈکوارٹر چمن پھاٹک پر ہینڈ گرینڈ حملے کرنے کا اعتراف کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملزم نے اعتراف کیا ہے اس نے 2020میں ایران کے علاقے سراوان میں دہشتگردی کی ٹریننگ حاصل کی اور اسکا کمانڈر بھی وہیں موجود تھا۔ڈی آئی جی نے بتایا کہ سی ٹی ڈی نے گزشتہ ایک سال کے دوران 666افراد کو گرفتار کیا جن میں سے121کوسزائیں ہوئیں، 36کو ضمانت ملی، 158مفرور ہیں اور کچھ افراد بری بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی کاروائیوں پر اگر کسی کو اعتراض یا تحفظات ہیں تو وہ محکمہ پولیس سے رابطہ کر سکتا ہے ہمارے کئی اہلکار کاروائیوں میں شہید اور زخمی ہوئے ہیں خاران آپریشن میں جو لوگ مارے گئے ان سے 82ایم ایم کے 12مارٹر گولے برآمد ہوئے اگر کسی کو شبہ ہے کہ کوئی شخص لاپتہ تھا تو اسکی ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہوگی ہم ہر ایک شخص کو مسنگ پرسن نہیں کہہ سکتے وفاقی حکومت، پولیس، محکمہ داخلہ بلوچستان کا باقاعدہ طریقہ ہے جس کے تحت کسی شخص کو لاپتہ قرار دیا جاتا ہے لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی باقاعدہ فورم ہیں جن پر تحقیقات کی جاتی ہے ماضی میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں مرنے والوں کو مسنگ پرسن کہا گیا اور وہ زندہ تھے، ایک واقعہ میں کالعدم تنظیم کے دہشتگرد جنہیں مسنگ پرسنز کہا گیا دہشتگردی کی واردات کے دوران مارے گئے سیکورٹی فورسز کے خلاف بیانیہ بنایا جاتا ہے تاکہ انکے حوصلے پست کئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی میں لہر میں تیزی آئی ہے جس پر کام کر رہے ہیں البتہ حالات ماضی کی نسبت بہتر ہیں پڑوسی ممالک میں حالات سے متعلق بہتر جواب دفترخارجہ دے سکتا ہے ماضی میں لوگ افغانستان میں موجود تھے جو یہاں کاروائیاں کروانے میں ملوث رہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زیارت میں ایک ایف سی اہلکار اور اینٹوں کا کام کرنے والے شخص کو اغواء کیا گیا ہے انکی تلاش جاری ہے تاہم قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پیش رفت سے آگاہ نہیں ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے