ٹرانس جنیڈر ایکٹ مغربی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے،ڈاکٹر رخسانہ جبیں

لاہور(ڈیلی گرین گوادر)ٹرانس جنیڈر ایکٹ مغربی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے-اس میں ضروری ترامیم کر کے انٹرسیکس تک محدودکرنا ناگزیر ہے -حکومت نافذ العمل قانون کو واپس لے – یہ معاشرتی مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا – اسے منسوخ کر کے ضروری ترامیم کے ساتھ پارلیمنٹ میں لایا جائے- ۔پاکستان میں مغرب کی طرز پر بنیادی فطری قوانین میں رخنہ اندازی کا وطیرہ اپنایا جا رہا ہے اور یہ سوچ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے -ان خیالات کا اظہار صدر ویمن اینڈ فیملی کمیشن ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے لاہور میں” بدلتے سماجی رویے اور ہماری ذمہ داریاں ” کے عنوان سے سربراہان تعلیمی ادارہ جات کی فکری نشست سے خطاب کے دوران کیا- انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بل سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جنس تبدیل کی ہے ان کی تبدیلی جنس کے اس عمل کو کالعدم قرار دے کر انہیں از سر نو میڈیکل بورڈ کے جائزے کے لئے پیش کیا جائے۔اس قانون کو صرف خنثی /انٹرسیکس تک محدود کیا جائے۔جسمانی طور پر مکمل مرد اور ایک مکمل عورت کسی نفسیاتی مسائل کی وجہ سے اپنی جنس تبدیل نہیں کرسکتا۔اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔جو حقیقی طور پر خنثی/انٹر سیکس ہے اسے احترام کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔یہ ایک آزمائش ہے اور کسی پر بھی آسکتی ہے۔لیکن میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوکر جنس کا تعین کیا جانا ۔اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قانون اسلام کے قانون وراثت کے خلاف ہے۔ٹرانس جینڈر کے قانون سے وراثت کاقرآنی قانون متاثر ہوگا جو کہ مفاد عامہ کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون دراصل اسلامی احکام کے مطابق قائم نکاح اور خاندان کے ادارے پرحملہ ہے۔اور کلی طور پر مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔اپنی شناخت بدلنے والا مرد دراصل خواتین کے حقوق متاثر کرے گا۔وہ اپنی شناخت کی بنیاد پر خواتین کے لئے مختص مقامات مثلاً اسکول وکالج،پولنگ اسٹیشن،ہاسپٹل میں مختص رومز اور مختلف مقامات پر واقع واش رومز میں آزادانہ نقل وحرکت کرے گا۔ اور کوئی اسے روک نہیں سکے گا۔حقیقتاً یہ عمل مسلم خواتین کے احترام، وقار اور شرف نسواں کے خلاف ہے۔
فلاح خاندان سینٹر کی صدر عافیہ سرور نے کہا کہ ہم ٹرانس جینڈر ایکٹ کو مغرب کی ثقافتی یلغار سمجھتے ہیں جس سے ہمارے معاشرے میں موجود شرم وحیا،پاکیزگی،احترام وشرف اور نظام خاندان تباہ کرنا مقصود ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنے سفارشات پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس شق کو ختم کرنا چاہیے جس میں خنثیٰ کو اپنی جنس کے تعین کے اختیار کی سفارش کی گئی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس تعین کے لئے بھی میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا لازم قرار دینا چاہیے۔ عافیہ سرور نےمزید کہا کہ خاندان مرد اور عورت کے امتزاج سے بنتا ہے – ان دونوں کا اپنی حثیوں کے دائرہ کار میں قید رہنا ہی معاشرتی فلاح کا ضامن اور اسلام کا مطلوب ہے -نائب صدر ضلع لاہور عظمی عمران نے کہا بدلتے سماجی رویوں کی اصلاح اور نوجوان نسل کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے نوجوان نسل کی آگاہی کے لئے ہر ادارے میں پروگرامات رکھے جائیں ملک میں اسلامی قانون کے نفاذ سے ہی خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا فورم میں موجود سربراہان ادارہ اور مختلف کالجز کی پروفیسر صاحبان نے اظہار خیال کے دوران مطالبہ کیا کہ بل میں استعمال ہونے والی متنازع اصطلاح “ٹرانس جینڈر کو تبدیل کیا جائے اور جو لفظ انگریزی میں اس کے لئے استعمال ہوتا ہے (انٹر سیکس) اسی کا استعمال کیا جائے تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ ہم جنسی پرستی پر کنٹرول کیا جائے – بل کو ضروری ترامیم کے بعد ازسر نو نافذ کیا جائے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے