بلوچستان ہائیکورٹ نے بورڈ آف ریونیومیں خواتین کا کوٹہ مقررنہ کرنے مرد امیدواروں کودرخواست کا اہل قراردینے کے عمل کوغیرآئینی قراردیدیا
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان ہائی کورٹ کے ججزجناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جناب جسٹس گل حسن ترین پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے محکمہ بورڈ آف ریونیو میں کمیشن کی جانب سے تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کی خالی آسامیوں کے لیے جاری کردہ اشتہارات میں خواتین کا کوٹہ مقرر نہ کرنے اورصرف مرد امیدواروں کو درخواست کا اہل قرار دینے کے عمل کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے روک دیا ہے۔معزز عدالت کے روبرو ایک خاتون پٹیشنر کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی درخواست پیش کی گئی جس میں اس امتیازی سلوک کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے معزز عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت بلوچستان نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے محکمہ بورڈ آف ریونیو میں تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں جن میں صرف مرد امیدواروں کو درخواست دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے جب کہ خواتین امیدواروں کو درخواست دینے سے روک دیا گیا ہے اور ریکوزیشن فارم میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کے فرائض سے خواتین نبرد آزما نہیں ہو سکتی- معزز بنچ کے سربراہ جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نہ صرف اسلام بلکہ آئین پاکستان میں بھی خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اسلام میں برتری یا درجہ بندی کسی کی جنس، نسل، رنگ، دولت اور حیثیت پر منحصر نہیں – تقویٰ اللہ کی نظر میں عزت اور قدر کی بنیاد ہے نہ کہ جنس مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا بنیادی تصور قرآن پاک سے ماخوذ ہے ہمارے مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ سب سے مقدس دستاویز یعنی 1973 کے آئین کے متعدد آرٹیکلز بھی خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ حکومت بلوچستان نے بلوچستان کمیشن ان دی اسٹیٹس آف ویمن ایکٹ نمبر V آف 2017 متعارف کرایا ہے جو کہ خواتین کے سماجی، معاشی،سیاسی اور قانونی حقوق کے فروغ اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے اور اس سے جڑے / متعلقہ معاملات کے لئے ہے تاہم چئر پرسن کی تقریری کے علاوہ ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ہم نے بھرتی پالیسی 1991 اور بلوچستان تحصیل داری سروس رولز 2015 کا جائزہ لیا ہے جو کہ اس حوالے سے بالکل خاموش ہے اور یہ ایسی امتیازی شقوں کے حامل نہیں ہیں – جواب دہندہ کا یہ موقف کے ریو نیو سب آرڈینیٹ سروسز میں خواتین کو ان کے کوٹے پر شامل کرنے پر 1998 سے عمل نہیں ہو رہا بالکل غیر قانونی ہے اور نہ ایسا کوئی بھی غیر قانونی کام وقت گزرنے کے ساتھ قانونی بن جاتا ہے حکومت بلوچستان تمام سرکاری سروسز میں تمام پوسٹوں پر خواتین کے لیے پانچ فیصد کوٹہ مختص کرنے کی پابند ہے معزز عدالت نے دلائل اور مذکورہ بحث و تمحیص کے تناظر میں خواتین کو مذکورہ آسامیوں کے لئے درخواست دینے کا اہل نہ سمجھنے کو امتیازی سلوک کے مترادف قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ یہ عمل آئین کے تحت جائز نہیں ہے اور سروس میں امتیازی سلوک کے خلاف مساوات اور تحفظ کے آئینی مینڈیٹ کے بھی خلاف ہے معزز عدالت نے ان بنیادوں پر درخواست کی اجازت دیتے ہوئے اسے ان شرائط کے ساتھ نمٹایا کہ 1- ایسی شرط جس کے تحت صرف مرد امیدواروں کو اہل قرار دیا گیا ہو اور خواتین کو روک دیا گیا ہو وہ غیر آئینی و غیر قانونی ہے 2- جواب دہندگان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صرف خواتین امیدواروں کے لیے 5 فیصد کوٹہ مقرر / ریزرو کرے 3- مخصوص کوٹہ کے علاوہ خواتین امیدوار اوپن میرٹ میں بھی حصہ لینے کی اہل ہیں 4- خواتین کے لیے مختص اسامیاں جن کے لیے اگر اہل خواتین امیدوار دستیاب نہیں تو انہیں مستقبل میں خواتین امیدواروں سے ہی پر کیا جائے گا 5- عدالت نے جواب دہندہ نمبر2 کو تحصیل داروں اور نائب تحصیلداروں کی آسامیاں دوبارہ مشتہر کرنے کا حکم دیا جس میں بلاتفریق تمام دلچسپی رکھنے والے امیدوار حصہ لے سکیں گے اور حکومت خواتین کی حیثیت کے حوالے سے کمیشن کے آفس کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لئے موجودہ قوانین میں پائے جانے والے ہر قسم کے امتیازات کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے گی۔