اب وقت آچکا ہے کہ کوئٹہ کے تمام بنیادی مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے عملی کام کا آغاز کیا جائے، مولانا عبد الرحمن
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس زیر صدارت ضلعی امیر مولانا عبد الرحمن رفیق منعقد ہوا۔جس ضلعی جماعت کی کارکردگی، آئندہ انتخابات، حلقہ بندیوں، سیلاب متاثرین کو ریلیف کی فراہمی اور تربیتی پروگراموں کے انعقاد کے ایجنڈوں پر تفصیلی بحث کی گئی اور اہم تجاویز سامنے آئیں، ضلعی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے مفتی محمد روزی خان ملک سکندر خان ایڈووکیٹ حافظ حسین احمد شرودی قاری انوار الحق حقانی قاری مہر اللہ حاجی عنایت اللہ بازئی مفتی عبد الرازق مولانا فیض محمد عبدالغفار میاں خیل مولوی عبد المالک مولانا محمد شاہ آغا مولانا سعید الرحمن مولانا محمدمولوی عزیز اللہ حاجی رحمت اللہ حافظ محمد یوسف رحیمی عزیز اللہ پکتوی حاجی اختر محمد عبد العزیز خان خلجی ایڈووکیٹ پروفیسر نظر محمد سیاف مفتی عنایت اللہ مولوی عبد الحنان حاجی عبد الرحیم غازی کاکا بازئی میر یسین مینگل شمس الحق اخوند زادہ مفتی رشید احمد حقانی مولانا سعید الرحمن مولانا نورمحمد بڑیچ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہدمسلسل کے سامنے رکاوٹوں اور منفی ہواؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا،مساجد کمیٹی کو مساجد کی حفاظت پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جبکہ سیلاب زدگان کو ریلیف کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے احسن طریقے سے مزید خدمت پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ عوام کی فلاح وبہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی، اجلاس میں کوئٹہ کی ابترصورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، اب وقت آچکا ہے کہ کوئٹہ کے تمام بنیادی مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے عملی کام کا آغاز کیا جائے اس حوالے سے صوبائی حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض افراد کی جانب سے جمعیت علماء اسلام پر تنقید کو حالات سے بے خبری اور تعصب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ملک کی اسلامی شناخت پر سیاہ دھبہ سمجھتے ہوئے اسے یکسر مسترد کرتے ہیں اسلام کی سربلندی اور غیر شرعی قوانین کے خلاف جمعیت علماء اسلام کی جدوجہد روز روشن کی طرح عیاں ہے، منفی پروپیگنڈے کرنے والے اپنے ایمان کی خیر منائیں، ہر ایک کو بخوبی علم ہے کہ یہ بل قومی اسمبلی نے 2018 میں ایسے ڈرامائی انداز میں کم تعداد اراکین کے ذریعے پاس کروایا گیا کہ اکثر اراکین کو علم ہی نہیں ہوا کہ اس میں ہے کیا؟ اس اس وقت ایوان میں موجود جمعیت علماء اسلام کی خاتون رکن نعیمہ کشور نے مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا تھا،یہ وہ ایام تھے کہ ایک طرف ختم نبوت بل میں ترمیم پر جمعیت علماء اسلام سراپا احتجاج تھی تو دوسری طرف نواز حکومت کو ختم کرنے کی سازشیں جاری تھیں، اسی اثنا میں پارلیمنٹ کا آخری سیشن بلایا گیا،جس میں بل کے حق میں جو ممبران تھے ان کو مطلع کر کے بلایا گیا تھا، نعیمہ کشور کے احتجاج اور بل کو کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے بل منظور کیا گیا، بظاہر اس بل میں خواجہ سراؤں سے ہمدردی کی آڑ میں کچھ سنگین نوعیت کے غیر شرعی نکات شامل کئے گئے تھے جو اس وقت کسی کو علم نہیں تھا، وہ نکات آئین پاکستان کے بھی متصادم ہیں، کیوں کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے تحت کوئی بھی شخص نادرا جاکر اپنے آپ کو مرد یا عورت کہہ کر جنس تبدیل کر سکتا ہے اور پھر نادرا تحقیق کا بھی مجاز نہیں حالانکہ دوسرے ممالک میں میڈیکل چیک اپ لازمی ہے مگر پاکستان میں چیک اب بھی ضروری نہیں ہے اور ان کو وہی حقوق آئینی طور پر حاصل ہوں گے جو جنس کے طور پر ان کا شناختی کارڈ ہے یعنی اگر کوئی مرد شناختی کارڈ میں عورت درج ہے تو وہ قانوناً عورت کہلاتے ہوئے کسی مرد سے شادی کا اہل ہوگا جو کھلم کھلا جنس پرستی ہی ہے اسی طرح کوئی عورت شناختی کارڈ میں اپنے آپ کو مرد لکھواکر کسی عورت سے شادی قانوناً شادی کرسکتی ہے۔ اجلاس میں صوبائی جوائنٹ سیکرٹری وسنئیر نائب امیر مولانا خورشید احمد جنرل سیکریٹری حاجی بشیر احمد کاکڑ مولانا محمد ایوب مولانا محمد اشرف جان مفتی عبد السلام ریئسانی مفتی عبد الغفور مدنی حافظ مسعود احمد سیکرٹری اطلاعات عبدالغنی شہزاد سیکرٹری مالیات میر سرفراز شاہوانی ایڈووکیٹ سالار حافظ سید سعداللہ آغا حاجی محمد شاہ لالا حاجی ولی محمدبڑیچ چوہدری محمد عاطف مولانا جمال الدین حقانی حافظ سراج الدین حافظ سردار محمد نورزئی حاجی صالح محمد مولانا محمد طاہر توحیدی مفتی محمد ابوبکر حافظ رحمان گل مولانا محمد عارف شمشیر حاجی صالح محمد مفتی نیک محمد فاروقی اور دیگر شریک ہوئے۔