ہم اس وقت اپوزیشن کے ماحول میں ہیں اس حوالے سے بہتر انداز میں حکومت اور جمعیت علماء اسلام ہی بتاسکتے ہیں، جام کمال خان

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکز ی رہنماء سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے،وزیراعلیٰ سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے،جمعیت علماء اسلام کے حکومت میں آنے کے حوالے سے واضح انداز میں صوبائی حکومت یا جمعیت علماء اسلام کے اراکین بتا سکتے ہیں،آپسی اختلافات نے پارٹی کو کمزور کیا کوشش ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو منظم کیا جائے۔یہ بات انہوں نے منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ سیلاب کے باعث گزشتہ اڑھائی ماہ سے کوئٹہ سے باہر تھا وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو سے کوئی قبائلی لڑائی ہے تاہم گزشتہ 8سے 9ماہ سے سیاسی خیریت یا دعا سلام کا ماحول نہیں تھا وزیراعلیٰ نے حلف اٹھانے سے قبل بھی ملاقات کی خواہش کی تھی لیکن اس دوران میں کراچی میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے براہ راست بات نہیں ہوئی مشترکہ سیاسی دوستوں کے ذریعے وزیراعلیٰ نے پیغام دیا کہ وہ ملاقات کے لئے آنا چاہتے ہیں اگر کوئی گھر آئے یا ملاقات کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے کھانے پر بلانے کا کوئی علم نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ آنے کا مقصد کوئی سیاسی بات نہیں ہے اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ حالات کیا ہیں ہم نے چند ماہ قبل عدم اعتمادکے حوالے سے جو قد م اٹھایا اس میں کامیابی نہیں ملی۔انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کے صوبائی حکومت میں شامل ہونے کے حوالے سے ایک صورتحال بن رہی ہے یہ بات واضح نہیں ہے کہ جمعیت علماء اسلام حکومت میں آرہی ہے یا حکومت نے اسے شامل ہونے کی دعوت دی ہے اب تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ حکومت میں آرہے ہیں یا نہیں ہم اس وقت اپوزیشن کے ماحول میں ہیں اس حوالے سے بہتر انداز میں حکومت اور جمعیت علماء اسلام ہی بتاسکتے ہیں اس بات کا انحصار حکومت اور جمعیت علماء اسلام پر ہے کہ وہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ کتنی جلدی عوام کے سامنے لاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی ایک بہترین پلیٹ فارم تھا جس میں تمام الیکٹ ایبل تھے لیکن ہمارے آپسی اختلافات بڑھ گئے اور اپنی ہی پارٹی کی جانب سے میرے خلاف عدم اعتماد آئی لیکن گزشتہ 8سے 10ماہ میں بھی پارٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے آج لوگ ڈبل مائنڈڈ ہیں کہ وہ کیا کریں اور طریقہ کار سوچیں بی اے پی میں کمزوری آئی ہے جس کے اثرات مستقبل پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئٹہ آتا ہوں تو خبریں چلتی ہیں کہ کچھ ہورہا ہے اس بار تماش بین بن کر آیا ہوں ہم کوئی موقف نہیں اپنا رہے جو قدم ہم نے ماضی میں اٹھا یا اسے پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے