لاپتا شہری حسیب حمزہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش، پولیس سے گمشدگی کی رپورٹ طلب
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شہری حسیب حمزہ کی عدالت میں پیشی کے بعد بازیابی کی درخواست نمٹاتے ہوئے آئی جی اسلام آباد پولیس کو تفتیش مکمل کر کے رپورٹ 22 ستمبر تک جمع کرانے کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا شہری حسیب حمزہ کو آج بروز بدھ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے حکام عدالت کے سامنے پیش ہو کر ریاست کی ناکامی کی وضاحت کریں گے۔
اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے شہری حسیب حمزہ کے کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق لاپتا شہری حسیب حمزہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا، پولیس شہری حسیب حمزہ کو لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچی۔
دوران سماعت مغوی کے والد ذوالفقار علی نے روسٹرم پر کہا کہ میرا بیٹا آگیا ہے جس پر جج نے استفسار کیا کہ بیٹا کدھر گیا تھا، کون لے کر گیا تھا۔مغوی حسیب حمزہ نے کہا کہ مجھے نہیں پتا، آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی ، جج نے پولیس سے استفسار کیا کہ آئی جی پولیس نے کیا انکوائری کی ہے جس پر پولیس افسر نے کہا کہ انکوائری کر رہے ہیں، 4 روز میں رپورٹ پیش کری گے۔جج نے استفسار کیا کہ آپ نے کس کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جس پر پولیس افسر نے کہا ابھی انکوائری کر رہے ہیں، مقدمہ میں تاخیر کیوں ہوئی اور کون ملوث ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ اس میں تفتیشی کون ہے جس پر پولیس افسر نے کہا کہ ایس ڈی پی او بھی ہیں اور جے آئی ٹی بھی بنا رہے ہیں جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ پہلے بھی آپ یہی کہہ کر گئے تھے اس کا نتیجہ ابھی تک نہیں آیا، تین کیسز تو اس عدالت میں ہے آپ کہہ کر چلے جاتے ہیں بعد میں اور واقع ہو جاتا ہے، پہلے واقعات جو ہوئے کیا تفتیش ہوئی ہے۔پولیس افسر نے کہا کہ تفتیش ہو رہی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپ پر ہی اعتماد کرے گی، کیا پولیس نے تفتیش کی حمزہ حسیب کہاں گیا؟ ہر کوئی اپنا کام کرے تو ان کو یہاں نہ آنا پڑتا، پولیس نے کہا کہ تفتیش کے بعد رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے۔
دوران سماعت حمزہ حسیب کے والد نے کہا کہ میرا یہ مسئلہ تھا جو حل ہوگیا ، اب میں مطمئن ہوں جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ مطمئن کیسے ہوسکتے ہیں، پہلے تو یہ کچھ بھی نہیں کر رہے تھے، کوئی بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہا، اگست کو مغوی کا والد ایس ایچ او کے پاس گیا، عدالت آنے کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کیا۔
جج نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس پر اب کیا کریں گے جس پر وکیل نے کہا کہ ہم اس پر قانون کے مطابق کارروائی کرینگے، جج نے کہا کہ اس سے پہلے کتنے کیسز پر تفتیش کی ؟ کیا ہوا ان مقدمات کا ؟سرکاری وکیل نے کہا ہم تو آج صرف اس کیس پر تفتیش کر رہے ہیں۔جج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کو ہدایت کی کہ آپ اس کیس کی تفتیش مکمل کریں اور آئی جی خود تفتیش کی نگرانی کریں۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ معاملے پر انکوائری کر کے 10 روز میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت خود تفتیش نہیں کر سکتی، آئی جی اسلام آباد پولیس دس روز میں نوجوان کے لاپتا ہونے پر تفتیش کرکے رپورٹ پیش کریں، نوجوان کو لاپتہ کرنے والے اور غفلت برتنے والے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔حسیب حمزہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے عدالت نے پولیس سے تفتیش مکمل کر کے رپورٹ 22 ستمبر تک طلب کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔وزیراعظم شہباز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں یقین دہانی کے بعد لاپتا افراد کے کیس میں اہم پیش رفت اس وقت سامنے سامنے آئی جب لاپتا شہری حسیب حمزہ 24 گھنٹے کے اندر اپنے والد کے ہمراہ پولیس اسٹیشن شہزاد ٹاؤن پہنچے۔
بیٹے کے گھر پہنچنے پر حسیب حمزہ کے والد نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ، وزیراعظم شہباز شریف اور آئی جی پولیس ڈاکٹر اکبر ناصر خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کارروائی کی وجہ سے مجھے میرا بیٹا واپس مل گیا۔اسلام آباد پولیس کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ بیان میں حسیب حمزہ کے والد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد کیپیٹل پولیس کی کوششوں کی تعریف کی۔ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق حسیب حمزہ کے والد نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھرپور سپورٹ پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حسیب حمزہ کے اہل خانہ نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان کا بھی شکریہ ادا کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز، حسیب حمزہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی تھی جہاں عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ آئی جی صاحب، یہ ناقابل برداشت ہے، لاپتا افراد سے متعلق پہلے ایک فیصلہ موجود ہے جس میں یہ واضح قرار دیا گیا ہے کہ شہری کے لاپتا ہونے پر آئی جی اور متعلقہ افسران ذمہ دار ہوں گے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ عدالت اب اس فیصلے کے مطابق ہی کارروائی کرے گی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس کو بروز بدھ صبح 10 بجے تک لاپتا شہری کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہر ایک کو بلا کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست میں ان کے والد ذولفقار علی نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا ایک مزدور تھا جو لیہ میں کام کرتا تھا۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ حالات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے بیٹے کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت لاپتہ شہری کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرے اور شہری کو اغوا کرنے اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔