سردار عطاء اللہ مینگل کچھ یادیں
تحریر:قاضی عبدالحمید شیرزادہ
سردار عطاء اللہ خان مینگل کے والد سردار رسول بخش خان مینگل طویل عرصہ سے بیلہ میں مقیم تھے۔جس کی وجہ سے مینگل قبیلہ کا پایہ تخت وڈھ بغیر سردار کے تھا۔
فروری 1954ء میں مینگل قبیلہ کے معتبرین نے باہم مشورہ کیا اور سفید ریش مینگل کا وفد ترتیب دیا۔جھالاوان میں معتبرین کے نمائندہ وفد کے لئے سماٹا معتبراک کی اصلاح استعمال کی جاتی ہے۔
مینگل قبیلہ کا یہ وفدلس بیلہ گیا اور سردار رسول بخش مینگل سے ملاقات کی اور انہیں مستقل طور پر وڈھ آنے کے لئے گزار ش کی۔سردار رسول بخش خان مینگل دلی طور پر وڈھ آنے پر آمادہ نہیں تھے۔مینگل قبیلہ نے وڈھ نہ آنے کی صورت میں سردار رسول بخش مینگل کے سامنے تجویز رکھی۔اگر آپ وڈھ آنا نہیں چاہتے تو ہمیں اجازت دیں کہ سردار مینگل کی ذمہ داریاں عطاء اللہ خان مینگل کے سپر د کریں۔اس تجویز پر سردار رسول بخش مینگل نے کہا کہ عطاء اللہ مینگل سرداری اور قبائلی معاملات میں نا تجزبہ کار ہے۔انہیں قبائلی معاملات میں دشواریاں پیش آسکتیں ہیں۔
سردار رسول بخش مینگل وڈھ آنے پر آمادہ نہیں ہوئے،مینگل معتبرین نے عطاء اللہ خان مینگل کو باقاعدہ طور پر وڈھ آنے کی دعوت دی اس فیصلہ کے چند دن بعد سردار عطاء اللہ خان مینگل وڈھ آئے۔وڈھ میں مینگل قبیلہ کے معتبرین سے ملاقاتیں کیں۔قبیلہ کے ذیلی شاخوں کے ٹکریوں سے مشاورت کی۔
عطاء اللہ خان مینگل کی گفتگو معاملہ فہمی کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ عطاء اللہ خا ن مینگل کی دستار بندی کی جائے گی۔اس زمانہ میں ریاست قلات۔قلات اسٹیٹ یونین K.S.Uکا فیڈریشن تھا۔اس میں مکران۔ریاست خاران،ریاست لس بیلہ شامل تھے اور قلات اسٹیٹ یونین کا آئینی سربراہ خان قلات تھا۔فوج،کرنسی،داخلہ،خارجہ اموروفاق پاکستان کے پاس تھے دیگر معاملات میں ریاست قلات خود مختار تھا اس کا اپنا وزیراعظم تھا۔اس زمانہ میں ریاست قلات کے وزیراعظم یار محمد کھنڈ تھے۔مینگل قبیلے کے وفد نے فیصلہ کیا کہ سرداری کے سلسلہ میں وزیراعظم قلات سے ملاقات کی جائے گی۔
عطاء اللہ خان مینگل اپنے معتبرین،معززین ودیگر100افراد کے وفد کے ساتھ قلات آئے تا کہ سرداری کے سلسلہ میں وزیراعظم سے ملاقات کی جائے۔وزیراعظم نے 100کے بجائے چیدہ 6افراد کے نمائندہ وفد سے ملاقات کی مینگل قبیلہ کے نمائندہ وفد نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی بطور سردار مینگل قبیلہ کے دستاربندی کے فیصلہ سے وزیراعظم کو مسٹر یار محمد کھنڈ کو آگاہ کیا۔
وزیراعظم قلات نے مینگل قبیلہ کے فیصلہ کی حمایت نہیں کی۔وزیراعظم نے تاثر دیا کہ عطاء اللہ خان مینگل کی دستاربندی کے فیصلہ سے قبل مجھ سے مشورہ کیا جاتا اس موقع پر مینگل نمائندہ وفد نے اپنے فیصلہ سے وزیراعظم قلات مسٹر یار محمد کھنڈ کو آگاہ کیا اور کہا کہ قبائلی روایات کے مطابق یہ قبیلہ مینگل کا حق ہے کہ وہ اپنے سردار کا انتخاب کریں۔
مینگل قبیلہ کا فیصلہ وزیراعظم کو ناگوار گزرا۔انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور معاملے کو طول دینے کی خاطر وہ ایک ہفتہ کے لئے قلات کے سر مائی ہیڈکوارٹر ڈھاڈر روانہ ہوئے اور وفد سے کہا کہ ڈھاڈر واپسی مزید بات ہوگی۔
وزیراعظم نے طاقت کے اظہار کے طور پر وفد کے دیگر اراکین کو زیر حراست رکھا ملاقات کے بعد عطاء اللہ خان مینگل نے سخت احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ زیر حراست معتبرین کو رہا کیا جائے۔عطاء اللہ خان مینگل اصولی سخت موقف کے باعث وزیراعظم کو مینگل وفد کے اراکین کو رہا کرنا پڑا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اپنے وفد کے ہمراہ وڈھ لوٹ آئے وزیراعظم نے انتقامی طور پر ناظم جھالاوان (اسسٹنٹ کمشنر جھالاوان) کے ذریعے سے سردار عطاء اللہ خان مینگل کو حکم دیا کہ وہ 48گھنٹوں کے اندر اندر وڈھ چھوڑ دیں۔عطاء اللہ مینگل نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرلیا اور پس پردہ ریشہ دانیوں کو بھانپ گئے عطاء اللہ مینگل اپنے ماموں سردار بلوچ خان محمد حسنی کے ہاں جبری مشکے چلے گئے۔
وزیر اعظم قلات ڈھاڈر سے واپس آئے اور عطاء اللہ خان مینگل کو ملاقات کرنے کو کہا۔عطاء اللہ خان مینگل نے وزیراعظم سے ملاقات کی وزیراعظم قلات یار محمد کھنڈ نے کہا کہ خان صاحب میر کرم خان مینگل بھی قبیلہ مینگل کا سردار بننے کے دعویٰ دار ہیں۔بلی تھیلے سے باہر آگئی۔درحقیقت خان قلات میر کرم خان مینگل کو وزیراعظم کے ذریعہ سے عطاء اللہ مینگل کے مقابلہ میں مینگل قبیلہ کا سردار بنایا چاہتے تھے۔
وزیراعظم قلات نے بذریعہ انتخاب سردار منتخب کرنے کا فیصلہ کیا اس انتخاب کے لئے مینگل قبیلہ کے تمام معززین میر اورٹکریوں نے رائے دہی میں حصہ لیا میر کرم خان مینگل نے صرف7ووٹ حاصل کئے اور سردار عطاء اللہ خان مینگل نے 106ووٹ حاصل کئے اور عطاء اللہ خان مینگل قبیلہ مینگل کے سردار بنے۔سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کے واحد سردار ہیں جو باقاعدہ انتخاب کے ذریعہ سے جمہوری سردار بنے۔ سرداررسول بخش مینگل خان قلات کی یہ نسبت جام لس بیلہ سے زیادہ قربت رکھتے تھے اور میر کرم خان مینگل خان قلات کے قریب تھے۔سردار رسول بخش مینگل جام غلام قادر محمد کے داماد تھے۔
1956ء میں مغربی پاکستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا زمانہ ہے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو۔سردار عطاء اللہ مینگل سے ملنیوڈھ گئے دیگر معاملات کے علاوہ سیاسی امور پر گفت گو ہوئی میر غوث بخش بزنجو نے سردار عطاء اللہ مینگل کو انتخابات میں حصہ لینے کی تجویز دی۔۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے کہا مجھے انتخابات میں دلچسپی نہیں اس لئے مجھے ان جھمیلوں میں نہ ڈالیں۔میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔اس موقع پر میر غوث بخش بزنجو نے کہا کہ”میں بھی انتخابات میں حصہ لوں گا۔اس پر سردار عطا ء اللہ خان مینگل نے کہا اگر آپ انتخابات میں حصہ لیں گے تو پھر میں بھی انتخابات میں حصہ لوں گا۔یوں میر غوث بخش بزنجو کی تحریک پر سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے قلات کی نشست سے کامیابی حاصل کی اور مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔جھالاوان،کچھی،نصیرآباد،ضلع قلات میں تھے۔قلات کی ایک نشست پر نواب غوث بخش رئیسانی منتخب ہوئے ایک سیٹ پر نواب محبوب علی خان مگسی ایک سیٹ پر میر نبی بخش خان کھوسہ، ضلع سبی سے نواب خیر بخش مری، ضلع ژوب سے صالح محمد مندوخیل مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مکران سے باقی بلوچ ممبر منتخب ہوئے بلوچستان کی 16نشستیں تھیں۔
سردار عطاء اللہ خان ایک زیرک، خوددار، باوقار شخصیت تھے انہوں نے اصولوں پر کبھی سودا بازی نہیں کی قومی اسمبلی میں بھرپور انداز میں ایوبی آمریت کو للکارا 1969ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کیا یحییٰ خان نے ون یونٹ کا خاتمہ کر کے صوبے بہال کئے 1970ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے سردار عطاء اللہ مینگل پی بی 16 قلات 2سے ممبر منتخب ہوئے۔ان انتخابات میں نیپ کو زبردست کامیابی ملی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ نیپ کی حکومتیں قائم ہوئیں سرحد میں مولانا مفتی محمود میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل اور گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی کوش شوں سے بلوچستان میں بولان میڈیکل کالج، بلوچستان یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا بلوچستان بورڈ اور بلوچستان ہائی کے قیام میں بھی ان کی کوششیں شامل ہیں جو بعد میں بنا گئے۔
نیپ کی کامیابی اور اکثریت کے باعث بلوچستان میں حکومت تو قائم ہوئی مگر مرکز کا رویہ نامناسب تھا شروع دن سے مرکز صوبہ بلوچستان میں مداخلت کر کے نیپ حکومت کا راستہ روکنے اور بداعتمادی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم کی شہہ پر بلوچستان پولیس نے ہڑتال کر دی تاکہ حکومت ناکام ہو اس موقعہ پر نیپ کے ورکرز اور بی ایس او کے نوجوانوں سے انتظامی معاملات سنھالے حتیٰ کہ کوئٹہ میں ٹریفک کو بی ایس او کے ورکروں نے کنٹرول کیا۔
مرکز نے پٹ فیڈر اور لسبیلہ میں مقتدرہ کے ہمنوا اور جام غلام قادر کے ذریعہ سے معاملات الجھانے کی کوششیں کیں لسبیلہ میں نیپ نے معاملات سنبھالنے کیلئے دیہی محافظ کے ذریعہ سے معاملات کو سنبھالا جسے مرکز نے قبائلی لشکر کشی کا نام دے کر نیپ حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔بھٹو نے میر غوث بخش بزنجو کو ہٹا کر نواب محمد اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کر دیا۔
اس کے خلاف نیپ نے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ خان مینگل کی قیادت میں باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے کوئٹہ جناح روڈ کے منان چوک پر ایک بڑے احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔ دوپہر ایک بجے جب اس احتجاجی جلسے سے سردار صاحب خطاب کر رہے تھے کہ اس موقع پر مشہور صحافی غلام محمد لغاری اور آغا عبدالظاہر احمد زئی بھی موجود تھے آغا عبدالظاہر ڈان ہوتل میں ایک بجے کی خبریں سن رہے تھے جس میں اعلان کیا گیا کہ مرکز نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
آغا عبدالظاہر اور غلام محمد لغاری نے دوران تقریر سردار عطاء اللہ مینگل کو اس خبر کی چٹ پکڑا دی اس پر سردار صاحب نے اپنی تقریر ختم کر دی نیپ حکومت ختم کر کے بلوچ رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم کئے گئے حیدر آباد سازش کیس بنایا گیا نیپ کی تمام قیادت کو گرفتار کر لیا گیا حیدر آباد سازش کیس میں تقریبا 500افراد شامل تھے عزیز اللہ شیخ نیپ کے وکیل تھے۔
پانچ جولائی1977ء میں ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا نواب محمد خان قصوری قتل کیس میں بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا ضیاء الحق نے بھٹو دشمنی میں حیدر آباد سازش کیس ختم کر کے نیپ لیڈروں کو رہا کر دیا۔
نیپ پر پابندی کے باعث متبادل سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر سردار شیر باز مزاری نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی بیگم نسیم ولی خان بھی اس میں شامل تھیں این ڈی پی میں نیپ کارکنان شامل تھے این ڈی پی کے جنرل سیکرٹری عابد زبیری تھے سردار عطاء اللہ مینگل نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اس پر این ڈی پی میں اختلافات پیدا ہوئے ولی خان، میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل کی راہیں جدا ہو گئیں۔اور پھر پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی کچھ عرصہ بعد سردار عطاء اللہ مینگل علاج کی غرض سے لندن چلے گئے اور طویل عرصہ تک جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔
لندن میں قیام کے دوران سردار عطاء اللہ مینگل، حفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو، افضل بنگش نے سندھی، بلوچ،پشتون فرنٹ کی بنیاد رکھی فرنٹ کا مقصد کنفیڈریشن کے طور پر جدوجہد کرنا تھا فرنٹ کوئی خاطر خواہ سیاسی کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
1962ء میں جنرل ایوب خان کوئٹہ کے دورہ پر آئے 6 اگست 1962ء کو ایوب اسٹیڈیم میں مسلم لیگی جلسہ سے خطاب کیا۔کیونکہ 5اگست 1962ء کو بلوچ سرداران نے مالی باغ فٹبال گراؤنڈ میں ایوب خان کے خلاف ایک بہت بڑا جلسہ کیا بلوچ رہنماؤں نے سخت تقاریر کیں اور لاؤڈ اسپیکر کا رخ گورنر ہاؤس کی طرف رکھا اکبر بگٹی، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری نے زبردست تقریریں کیں۔
ایوب خان کا 6اگست کا جلسہ اور تقریر دراصل 5اگست کے جلسہ کے جواب میں تھے ایوب خان نے سخت غصیلے لہجے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نواب اکبر خان بگٹی کی سزائے موت معاف کر کے اسے نئی زندگی دی وہ آج میرے خلاف زبان درازی کر رہا ہے۔
7اگست کو بلوچ رہنماؤں نے دوبارہ جلسہ کیا اور انتہائی سخت تقاریر ایوب خان کے خلاف کیں نواب اکبر خان بگٹی نے کہاکہ ایوب خان ایک بلوچ کو موت سے ڈراتا ہے اس تقریر پر ایوب خان انتہائی سیخ پا ہوا۔
اس کے بعد بلوچ رہنماؤں نے 16 اگست1962ء کو لیاری کراچی کے ککری گراؤنڈ میں ایک عظیم الشان جلسہ کیا اور ایوبی آمریت کے خلاف تقریریں کیں جلسہ کے بعد 17 اگست کو سردار عطاء اللہ مینگل کو ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا اور ملتان جیل منتقل کیا گیا۔
نواب اکبر خان بگٹی کو ان کے ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا۔
11اگست 1989ء کو میر غوث بخش بزنجو کا انتقال ہوا سردار عطاء اللہ مینگل نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کیلئے لندن سے کراچی پہنچے نواب محمد اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان تھے وہ انہیں اپنے طیارے میں کراچی سے خضدار لائے خضدار سے نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطاء اللہ مینگل بذریعہ سڑک نال پہنچے میر غوث بخش بزنجو کے جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔
میر صاحب کی تدفین اور بعد آخری دعا کے موقعہ پر میرے دائیں جانب سردار عطاء اللہ مینگل اور بائیں جانب نواب اکبر بگٹی کھڑے تھے نواب بگٹی فاتحہ کے بعد کوئٹہ چلے گئے میں اور سردار عطاء اللہ مینگل تین دنوں تک نال میں میر صاحب کی تعزیت پر بیٹھے رہے۔
میں یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا مینگل خاندان میں میر فیروز مینگل ولد ضیاء اللہ مینگل کے سسر وفات کے باعث جائیداد کے مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا میر فیروز مینگل ضیاء اللہ مینگل کے فرزند، سردار عطاء اللہ مینگل اور میر مہر اللہ مینگل کے بھتیجے تھے جب فیروز کے سسر کا انتقال ہوا تو ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی بیوہ اور دو صاحبزادی تھیں جائیداد کے تقسیم کے مسئلہ پر اختلافات ہوئے میں نے اس بارے میں سردار عطاء اللہ مینگل سے گزارش کی کہ اس مسئلہ کو حل کریں انہوں نے بڑی فراخدلی سے یہ ذمہ داری مجھے دی اور کہا کہ مہر اللہ مینگل کے ساتھ بیٹھ کر آپ فیصلہ کریں میں نے اسلامی شرعی قوانین کے تحت بیوہ، صاحبزادیوں اور دیگر کا حصہ مقرر کر دیا سردار عطاء اللہ مینگل نے سب کو شرعی تقسیم کے مطابق جائیداد میں حصہ دیا اور معاہدے پر تصدیقی دستخط کر دیئے فیصلہ کے مطابق 1/8 حصہ بیوہ کیلئے دو حصے بیٹوں کیلئے ایک حصہ محمد نور مینگل کزن میر عبدالنبی مینگل کیلئے مقرر کیا۔
سرکار کی ہمیشہ کوشش رہی کہ بلوچ سیاستدان سرداروں کی کردار کشی کی جائے ان کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کیلئے ان کے خاندان اور مخالفین کو استعمال کیا گیا 1963ء میں ایوب خان نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ایوب خان نے سردار عطاء اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش کی سرداری ختم کر کے نئے سردار مقرر کئے۔
حماقت انگیز بات ہے کہ سرداری ختم کر کے پھر اپنے پسند کے نئے سردار مقرر کئے جاتے ہیں ایوب خان نے اکبر خان بگٹی کی جگہ ان کے خاندان کے جمال خان بگٹی کو، نواب خیر بخش مری کی جگہ ان کے چچا دودا خان مری کو اور سردار عطاء اللہ مینگل کی جگہ کرم خان مینگل کو سرکاری سردار مقرر کر دیا اس فیصلہ کو قبائلی عوام نے مسترد کر دیا اور تینوں سردار اپنے علاقوں میں پہنچتے ہی قتل کر دیئے گئے سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی سیاسی زندگی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے فرزند اسد اللہ مینگل کی قربانی دی جن کی لاش کے بارے میں آج تک معلوم نہ ہو سکا مگر سردار عطاء اللہ مینگل نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا اگر کبھی کسی نے اس واقعہ کا تذکرہ ذکر کر بھی دیا تو سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ تمام بلوچ نوجوان میرے لئے اسد اللہ مینگل ہیں۔
نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل حیدر آباد سازش کیس میں اسیر تھے کہ سردار عطاء اللہ مینگل کے فرزند اسداللہ مینگل اور ان کے ساتھی احمد شاہ سردار شیر باز مزاری کے گھر سے نکل رہے تھے کہ دریا خان کھوسہ کے بیٹے خالد کی نشاندہی پر ان پر فائرنگ کی گئی اسد اللہ مینگل زخمی ہوئے انہیں زخمی حالت میں احمدشاہ سمیت اٹھا لیا گیا اس کے بعد سے آج تک ان کا پتہ معلوم نہ ہو سکا سردار عطاء اللہ مینگل نے بڑے حوصلہ سے یہ خبر سنی اور اپنی موت تک یہ دکھ اپنے سینے میں دفن رکھا۔اس واقعہ پر میں نے ایک قطعہ براہوئی زبان میں کہی
اسد نا قبر نا کس خبر اف
اسد کے قبر کا کسی کو نہیں معلوم
اسد انا کیس زیراوزبر اف
اسد کے کیس کی کوئی معلومات نہیں
خدایا نا خدائی ٹی مریک دھن
اے خدایا تیری خدائی میں ایسا کیوں؟
جہاں آ کل ٹی نکن کسرا ف
تیرے جہاں میں بس ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں
سبحان وائل عربوں میں ایک بہت بڑے خطیب گزرے ہیں میری ناقص رائے ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے سبحان وائل ہیں سردار صاحب بغیر لگی لپٹی اپنی بات کہنے کی جرات اور سلیقہ رکھتے تھے۔
خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کی تقریب تھی گورنر بلوچستان جنرل عمران اللہ خان اس میں مدعو تھے تقریب میں خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر آغا عبدالقادر بلوچ نے سردار عطاء اللہ مینگل کو شرکت کی دعوت دی بلوچستان اسمبلی کے سپیکر وحید بلوچ بھی پروگرام میں مدعو تھے سردار عطاء اللہ مینگل کی آمد کا سن کر بڑی تعداد میں خضدار کے عوام اور طلباء نے پروگرام میں شرکت کی تقریب میں پہلی نشستوں پر کنٹرولر گل بنگلزئی، عبدالستار لہڑی، پروفیسر عبدالرحمان، شہید حبیب جالب، محمد عالم جتک کے ہمراہ میں بھی موجود تھا سردار عطاء اللہ خان مینگل نے ایک گھنٹہ طویل جامع تقریر کی سردار عطاء اللہ نے کھل کر مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
1972ء میں جب نیپ کی حکومت تھی سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان تھے خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی سردار صاحب کی کوششوں سے قائم ہوا تھا سردار عطاء اللہ مینگل نے دوران تقریر سخت الفاظ میں تنقید کی کہ بلوچستان میں گورنر کیلئے کوئی مقامی شخص نہیں ملا کہ باہر سے ایک شخص کو لا کر گورنر بلوچستان بنایا گیا ہے یہ بات گورنر کو ناگوار گزاری۔
دوسرے دن گورنر عمران خان نے وائس چانسلر عبدالقادر بلوچ سے بازپرس کی کہ آپ نے سردار عطاء اللہ مینگل کو پروگرام میں کیوں دعوت دی آغا عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان جھالاوان کے فرزند ہیں وہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں یہ ان کا مادر وطن ہے خضدار انجینئرنگ کالج کا سنگ بنیاد سردار صاحب نے رکھا کوئی انہیں کالج آنے سے نہیں روک سکتا۔
15اکتوبر1955ء کی بات ہے کہ خضدار میں ون یونٹ کے قیام کے موقع پر اسسٹنٹ کمشنرنے ایک رائفل شوٹنگ کا مقابلہ منعقد کروایا سردار عطاء اللہ مینگل نے رائفل شوٹنگ میں حصہ لیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی دس روپے انعام حاصل کیا۔ایک بار کسی تقریب میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے مجھ سے اس واقعہ کے متعلق پوچھا کہ سردار مینگل نے ون یونٹ کے نفاذ کے موقع پر رائفل شوٹنگ میں حصہ لیا ھپر آپ اور بلوچ لیڈران ون یونٹ کے کیوں مخالف ہیں میں نے عرض کیا کہ اس زمانہ میں سردار عطاء اللہ مینگل سیاست میں سرگرم نہیں تھے جب وہ سیاست میں متحرک ہوئے انہیں حالات کا ادراک ہوا ون یونٹ کے سیاسی، معاشی، استحصالی پہلوؤں کے مضمرات کا علم ہوا تو سردار عطاء اللہ مینگل سمیت ہر ذی شعور سیاسی رہنماؤں نے ون یونٹ کی کھل کر مخالفت کی رائفل شوٹنگ میں شرکت کوئی سیاسی عہد نامہ تو نہیں تھا۔2005ء میں خضدار پریس کلب کے ایک پروگرام میں سردار عطاء اللہ مینگل کو مدعو کیا گیا اس پروگرام میں طلباء، ٹریڈ یونین، ورکرز عمائدین شہر، مختلف سیاسی پارٹیوں کے ورکرز، خضدار ہندو پنچائیت کے اراکین شامل تھے سردار صاحب نے بڑی مدلل اور نقد گفتار گفتگو کی۔
سوال جواب کے سلسلہ میں ایک نوجوان رشید بارانزئی مینگل نے تلخ اور بڑے سخت انداز میں کوئی سوال کیا تو سردار صاحب نے کہا کہ نفرت کے بجائے آپ اپنے حصے کا کام ایمانداری اور جرات سے کریں جیسے کہ یوان جانی رام کر رہا ہے۔
خضدار پریس کلب کی بنیاد 1992ء میں میر محمد خان مینگل نے رکھی اس میں میر عبدالرحمان زہری، چیئرمین ٹاؤن کمیٹی خضدار اور کمشنر قلات ڈویژن حفیظ اللہ خان کا تعاون بھی شامل تھا سردار عطاء اللہ مینگل ازراہ مذاق میر محمد خان میراجی کے بارے میں کہتے تھے کہ محمد خان دریائے نیل ہے ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرتا رہتا ہے۔
بعد از مغرب ڈیرہ باوا صاحب میں سردار عطاء اللہ مینگل مدعو تھے دیوان جانی رام نے ہندو پنچائیت کے ساتھ مل کر یہ پروگرام ترتیب دیا تھا پروگرام میں ہندو پنچائیت کی کثیر تعداد کے علاوہ مجھے شہید امان اللہ زرکزئی، سردار نصیر احمد موسیانی، بابو عبدالحق محمد شہی کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی سردار عطاء اللہ مینگل نے ہندو برادری کی وطن سے محبت کا خصوصی تذکرہ کیا کہ 1839ء میں قلات پر انگریز حملہ کے وقت خان میر محراب خان کے ساتھ وطن کیلئے جان قربان کرنے والوں میں وزیرخزانہ ریاست قلات دیوان بچامل بھی شامل تھے۔
عطاء اللہ مینگل نے بتایا کہ ایک جنگ میں خان محراب کے ساتھ میرے ایک جد میر ولی محمد خان مینگل بھی شامل تھے واضح رہے کہ دیوان جانی رام کراچی سے میت کے ساتھ اقلیتی وفد کے ساتھ وڈھ آئے تین دن تک تعزیت میں بیٹھے رہے سردار صاحب نے کہا کہ بھائی ہندو بلوچ معاشرے کا حصہ ہیں سردار صاحب نے وڈھ میں اقلیتی برادری کے لئے ایک لاکھ فٹ زمین کا عطیہ بھی دیا اور تجویز دی کہ 50ہندو گھرانے پانچ پانچ ہزار فٹ پر اپنا گھر تعمیر کردیں اس میں دیوان جانی رام کی کاوش شامل تھی سردار صاہب کو دیوان جانی رام کو عزت دیتے تھے۔سردار عطاء خان مینگل بہت ہی قدردان اور مردم شناس انسان تھے سیاسی اختلاف کو دوستی پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے سیاسی علمی شخصیات کا احترام کرتے تھے مولانا عبدالعزیز صاحب خطیب چمن پھاٹک مسجد تھے مولانا عبدالعزیز صاحب نے مسجد سے متحصل ایک مدرسہ دارلرشاد قائم کیا تھا آپ اس کے مہتمم اعلیٰ تھے 12اپریل1973ء کو مولانا عبدالعزیز انتقال کر گئے آپ ان کی تعزیت کیلئے تشریف لائے اور پورا دن وہاں بیٹھے رہے مولانا عبدالعزیز صاحب امیر جماعت اسلامی بلوچستان تھے عطاء اللہ مینگل انہیں وطن کا رہبر اور مرد قلندر کہتے تھے سردار صاحب کہتے تھے کہ مولانا عبدالعزیز جیسی علمی شخصیت کبھی کبھار پیدا ہوتیں ہیں۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل اپنے دیرینہ رفیق شفیع محمد عرف بابے لہڑی کا از حد احترام کرتے تھے عطاء اللہ مینگل اکثر تذکرہ کرتے تھے کہ بابے لہڑی کا پورا خاندان بلوچ تحریک کے ہر اول دستے کے بے لوث رکن ہیں بابے لہڑی نے بلوچ سیاسی تحریک کے ساتھ وابستگی کے دوران مصائب کا بڑی جرات اور حوصلہ مندی سے مقابلہ کیا بابے لہڑی اکثر خضدار میرے پاس آتے تو میں اور بابے لہڑی وڈھ سردار صاحب کے پاس حاضر ہوتے سیاست اور دیگر معاملات پر ہماری بھرپور گفتگو ہوتی۔
سردار عطاء اللہ مینگل اکثر مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی فاضل دیوبند کا ایک جملہ داہرتے تھے کہ مولانا محمد عمر صاحب نے اپنے صاحبزادے آیت اللہ درانی کو ہدایت کررکھی تھی کہ میرے مرنے کے بعد تعزیت نہ لیناکیونکہ جو قوم اپنے حقوق اپنے جیسے بندوں سے حاصل نہیں کر سکتا وہ خدا سے میری کیا مغفرت لے سکتا ہے سردار صاحب اکثر کہتے تھے کہ ہمارا وطن بلوچستان انتہائی مردم خیز ہے۔
سردار صاحب کسی بھی تنازعہ کے فیصلہ کیلئے اپنے قبائلی معتبرین اور ٹکریوں سے باہم مشاورت کرتے تھے اور قبائلی جھگڑے قتل اور اراضیات کے معاملات میں انتہائی غیر جانبدارانہ فیصلے کرتے تے۔
ایک مرتبہ دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ حاجی نیک محمد مینگل کا تذکرہ ہوا تو سردار صاحب نے شائستگی اور احترام سے ان کا تذکرہ کیا حالانکہ نیک محمد مینگل کے ساتھ سردار عطاء اللہ مینگل کے سخت سیاسی اختلافات تھے نیک محمد مینگل کی سرکار سے قربت کچھ زیادہ ہی تھی۔
سردار عطاء اللہ مینگل نے بتایا کہ جب میں جیل سے رہا ہو کر آیا تو مینگل قبیلے کے تمام سرکردہ افراد مجھ سے ملنے آئے ان میں حاجی نیک محمد صاحب بھی تھے۔
اس موقع پر میں نے کہا کہ میں مینگل قبیلہ کی سرداری سے دستبردار ہونا چاہتا ہوں محفل میں موجود تمام لوگ خاموشی سے سنتے رہے مگر حاجی نیک محمد مینگل نے رائے دی کہ سردار صاحب اپنے فیصلہ پر نظرثانی کریں ایسی غلطی نہ کریں حاجی نیک محمد نے کہاکہ آپ کی عزت اور مقام مینگل کی سرداری سے ہے اگر آپ کراچی جا کر دیکھیں کہ کتنے ہی لیڈران کراچی کی سڑکوں پر نظر آئیں گے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل تمام اہل بلوچستان کی سیاسی قربانیوں اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے تھے مینگلوں میں حاجی نیک محمد اور علی محمد مینگل کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے تھے۔سردار عطاء اللہ خان مینگل حقیقت پسند اور روایت پسند بے باک انسان تھے۔دوران گفتگو سردار صاحب اپنے دشمنوں کا کم مگر اپنے دوستوں کا ذکر کرتے تھے مگر سیاسی دشمنوں کو ڈنکے کی چوٹ پر للکارتے تھے۔سردار عطاء اللہ خان مینگل اکثر میر غوث بخش بزنجو کا تذکرہ برائے احترام ادب سے کرتے تھے کہتے تھے کہ ہم سب میں میر غوث بخش بزنجو عظمت کے مینار تھے۔جب بھی ہماری ملاقات بابو عبدالرحمن کرد سے ہوتی تھی تو بابو عبدالرحمن کرد کی نصیحت تھی کہ آپ سب اپنا ناطہ سردار عطاء اللہ خان مینگل سے کبھی نہ ٹوٹنے دیں۔میر غوث بخش بزنجو نے اس کو ہیرہ پہچان کر اسے سیاست میں لائے اور آج سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان اور بلوچ قوم کا سرمایہ افتخار ہیں کئی برسوں تک میں اور آزات جمالدینی کوئٹہ سریاب میں ایک حویلی میں بمعہ اہل وعیال مقیم رہے۔
یہ 19اگست1992ء کی بات ہے کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیربخش مری افغانستان سے آنے والے مری بلوچوں کے استقبال کے لئے دالبندین میں مقیم تھے۔انہی دنوں کراچی میں پنجابی،پشتون اتحاد نے باچا خان ایوارڈ سردار عطاء للہ خان مینگل کو دینے کا اعلان کیا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل اپنے جلاوطن مری بلوچوں کے استقبال کو چھوڑ کر کراچی نہیں گئے بلکہ اپنے نمائندے کے طور پر ایوارڈ وصول کرنے کے لئے محمد خان مینگل نمائندہ مقررکیا۔یہ پروگرام کراؤن پلازہ کراچی میں منعقد ہوا اسیٹج پر یوسف مستی خان بھی تشریف فرماتھے۔
1998ء کی بات ہے جب سردار اختر جان مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان تھے میرے ایک جاننے والے اسسٹنٹ کمشنر نے حب میں پوسٹنگ.کے لئے مجھے بہت تنگ کیا کہ آپ میری سفارش کردیں سردار اختر جان آپ کو انکار نہیں کریں گے۔ایک دن میں اور شہید صمد خان رئیسانی سردار عطاء اللہ خان سے ملنے وڈھ گئے مختلف موضوعات پر ہماری گفت گورہی۔سردار عطاء اللہ مینگل سے میں نے حب میں اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹنگ کی بات کی۔سردار صاحب نے ازراہ تفض کیا کہ قاضی صاحب سرکاری ملازمین کسی کی مجبوری کے بجائے اپنی جیب کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اس آفیسر کا ضامن کون ہوگا کہ کل وہ ہماری سفارش کا بھرم رکھ پائے گا۔؟میں نے کہا کہ میں ضامن ہوں۔سردار عطاء اللہ خان مینگل اسی لمحے اختر جان سے رابطہ کیا اور کہا کہ قاضی صاحب کے بندے کا کام کردیں چند دنوں میں اس کی پوسٹنگ بطور اسسٹنٹ کمشنر حب کردی گئی۔کوئی چار ماہ بعد ایک دن پر سردار صاحب سے ملنے وڈھ گئے دوران گفتگو سردار صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس آفیسر کو آپ کی سفارش پر حب میں تعینات تو کردیا گیا ہماراخیال تھا کہ وہ اپنی انگلیوں کو لتھڑتے بغیر گذارہ کرے گا مگر اس ظالم نے تو مہینوں تک فضل ربی کا وضو کرلیا مجھے بڑی شرمندگی ہوئی یہ میری زندگی کا انوکھا دلچسپ واقعہ تھا اس کے بعد کسی ضرورت کے لئے بھی میں نے سفارش سے توبہ کرلی۔1962ء میں آپ قومی اسمبلی کے ممبر تھے آپ نے اسمبلی میں بھر پور انداز میں بلوچستان کا کیس پیش کیا بلوچ عوام کی محرومیوں اور نا انصافیوں کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔
کسی زمانہ میں میر غوث بخش بزنجو،سردار عطاء اللہ مینگل،نواب محمد اکبر بگٹی،میرگل خان نصیر،ملک محمد عثمان کانسی،عبدالواحد کرد ودیگر بلوچ سیاسی رہنماء جناح روڈ میں کیفے ڈان۔فردوسی اور دیگر مخصوص مقامات پر باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔نوجوان سیاسی ورکران کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔کوئٹہ کا جناح روڈ بلوچستان کی سیاست کا مرکز ہوا کرتا تھا ان سیاسی ادبی اور علمی مراکز میں ایک گوشہ ادب اور قلات پبلشرز کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔زمرد حسین جسے NAPنے سینیٹر منتخب کیا تھا۔قلات پبلشرز ان کی ملکیت تھا۔زمرد حسین NAPکے سینئر رہنما تھے۔کتابوں کی اس دکان میں آعبدالکریم احمد زئی،میر گل خان اور دیگر رہنماء آتے تھے۔
میری یادداشتوں میں ایک اور واقعہ محفوظ ہے کہ ایک بار حاجی میر عبداللہ جان محمد شہی،شہید عبدالخالق لانگو اور روشن خیال نوجوان میر عبدالحئی لانگو خضدار تشریف لائے۔چائے وغیر پینے کے بعد عبداللہ جان محمد شہی نے کہا کہ کیوں نہ ہم اپنی سردار عطاء اللہ خان مینگل کے پاس چلیں۔ہماری اس گفت گو کے دوران ممتاز قوم پرست رہنما قلی کیمپ کوئٹہ میں میر غوث بخش بزنجو کے رفیق نیپ کے کارکن بابو عبدالحق محمد شہی تشریف لائے ہم سب قافلہ کی صورت میں سردار عطاء اللہ خان مینگل کی خدمت میں وڈھ میں حاضرہوئے۔اس محفل میں میر عبداللہ جا ن محمد شہی نے سردار صاحب سے سوال کیا۔آخر یہ حکمران اس ملک کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ہر آنے والادن بداعتمادی اور مایوسی پیدا کررہا ہے اس پر سردار صاحب نے فرمایا کہ وہ آقاہیں اور ہماری حیثیت محکوموں کی ہے۔وہ اپنی…….انگیز میں من مانی کرتے رہیں گے۔
بالا دست پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ کیوں محکوموں کی بات کو سنے گا کیونکہ طاقت کے تمام سرچشمے ان کے پاس ہیں وہ سندھی،پشتون،بلوچ کے لئے جو فیصلے کریں ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔
سردار صاحب نے کہا کہ ہمیں مشترکہ جدوجہد کے ذریعے سے ان کے دست قاتل کو جھٹکنا ہوگا پنجاب کی بے لگام سول /ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کوئی ایک محکوم قوم نہیں روک سکتا۔اپنے حقوق کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمسائیہ ممالک میں تغیرت کا اثر ہم پر بھی پڑے گا۔ہمسایہ ممالک میں کسی قسم کی مداخلت کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں بڑی ثابت قدمی،استقلال سے بلوچ عوام کی سیاسی،معاشی خود مختاری کے لئے لازوال جدوجہد کی۔اپنے فرزند کی قربانی دی،قید وبند کی صوبیتں برداشت کیں۔عارضہ دل کا شکار ہوئے۔سخت ترین قید اور سفاک آمریتوں کی جانب سے دھونس،دھمکی،جبر کے خلاف اپنے حقوق کے لئے کوئی مصالحت نہیں کی اور نہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار ہوئے۔
سردار عطاء اللہ مینگل نے برجستہ بر ملا او ر ڈنکے کی چوٹ پر اسٹیبلشمنٹ کی چہرہ دستوں کو بے نقاب کیا۔کراچی میں ان کے بچوں کو ہراساں کیا۔جب ان کو پکڑا گیا تو یہ سرکار کے لوگ تھے۔
پرویز مشرف نے انتقاماً سردار اختر جان مینگل کو گرفتار کیا اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کو پنجرئے کی عدالت میں پیش کیاگیا انہی اسیری کے ایام میں سر دار اختر جان مینگل کو خوراک میں ایسی کوئی چیز دی گئی کہ سردار اختر جان کو رہائی کے بعد جرمنی سے طویل عرصہ تک علاج کے بعد صحت یابی نصیب ہوئی۔
ایک بار سر دار عطاء اللہ مینگل نے سردار اختر جان مینگل کے سیاست میں آنے پر کہا کہ میں لندن میں ہوں۔سردار اختر جان مینگل کو بلوچستان اور بلوچ سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔انہیں ہدایت کی کہ سردار اختر جان بلوچستان جائیں اور سیاست کا حصہ بنیں۔کسی نے کہا کہ سردار اختر جان سیاست میں ناتجربہ کار ہیں سردار صاحب نے کہا کہ میں سردار اختر جان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بے رحم سیاست کے سمندر میں اسے دھکیل رہا ہوں یا تو وہ ڈوب جائے گایا پھر وہ بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے سیاست کے لئے ایک بااعتماد سیاستدان بن کر ابھرے گا۔اس طرح سردار عطاء اللہ مینگل کو دور اندیشی اور بصیرت نے اختر مینگل کے انتخاب کو درست ثابت کیا آپ بہترینمردمشناس تھے۔
افسوس کہ بلوچستان کی سیاست کا آخری مہتاب 2ستمبر2021ء کر کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔جائیدادوں کی وارثت کا جانشین بے شمار ہوتے ہیں مگر سیاسی اور فکری جانشین ہونا بڑی خوش بختی ہوتی ہے۔یہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی خوش نصیبی ے کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی سیاسی وراثت اختر جان مینگل کی صورت میں موجود ہے امید ہے کہ سردار اختر جان مینگل اپنے والد کی عظمت اور جرات کو کہیں بھی کسی بھی صورت میں داغ دار نہیں ہونے دیں گے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل کی بے لوث سیاسی جدوجہد بلوچ قوم کی تاریخ کا وہ باب ہے جس کے بغیربلوچستان کی تاریخ نامکمل رہے گی۔سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک سردار ہوتے ہوئے 1972میں جب وہ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں 21جون1972کے اجلاس میں جو سرداری سسٹم اور اہلیان ریاست کی مراعات کے خاتمے کی قرار پیش کی جبکہ دوسری طرف ریاست سرداری سسٹم کو بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے کا پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے۔اس قرار داد کی مخالفت وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ عبدالقیوم خان کی ہدایت پر جام آف لس بیلہ اور چیف آف سراوان نے کی۔سردار عطاء اللہ خان مینگل کہتے تھے کہ سردار سسٹم نے اپنی عمر پوری کر لی ہے اسے اب ختم ہوجانا چاہیے مگر سرکار نے اب بلوچستان میں ایک ہی قبیلے کے اندر دو دو۔تین تین سردار پیدا کررکھے ہیں۔انہیں بطور کاونٹر فورس کے بلوچستان کے حقیقی سیاسی قوتوں کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے اور انہیں مالی مراعات اور سیاسی آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔
عطاء اللہ منی رب ء عطاء انت
عطاء اللہ رب کی عطاء ہے
آئی فکر آلم ء فکر ء حبا انت
اس کی فکر بلند ہے سب سے
سلامان پیش بہ کن شیرزاد عطاء آ
عطاء کو پیش کرتا ہے عقیدت شیر زاد
نگہوان وت تئی شائن خدانت
خدا کے رحمتوں کی برسات ہو تم پر