سردار عطاء اللہ مینگل جہاں کو ویران کر گئے
تحریر:شہباز چاکر بلوچ
محترم قارئین السلام علیکم ورحمتہ اللہ امید ہے آپ کے مزاج بخیر ہوں گے موت برحق ہے اور ہر شخص کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات اولیاء کرام صحابہ اور پیغمبر کوئی بھی یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا سب اپنے وقت مقررہ پر اللہ کے حکم سے موت کی آغوش میں چلے گئے اسی طرح بلوچستان کی نامور سیاسی سماجی اور قبائلی شخصیت سردار عطااللہ مینگل بھی بلوچ قوم کو تنہا،روتا، سسکتا اور آہیں بھرتا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔
لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت عرصہ سے سیاست اور سیاسی معاملات سے لاتعلق ہوگئے تھے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہوا۔ جس سردار عطااللہ خان مینگل کو میں جانتا ہوں وہ کبھی بھی بلوچ،بلوچستان اور یہاں کی سیاست سے لمحہ بھر بے خبر لاتعلق یا جدا نہیں رہے کیونکہ سردار عطاء اللہ خان مینگل پیدا ہی بلوچ سیاست اور بلوچستان کے لیے ہوئے تھے ان کا جینا مرنا اس سرزمین اور یہاں کے لوگوں کے لئے تھا وہ عمر بھر مثبت سوچ کے ساتھ زندہ رہے اور مرتے دم تک اپنے لوگوں اور دھرتی کے حقوق کا تحفظ کرتے رہے ان کی سوچ دیرپا اور پائیدار تھی۔ وہ سرزمین بلوچستان سمیت ہر بلوچ کا حق ملکیت تسلیم کیے جانے کے سب سے بڑے حامی تھے۔
سردار صاحب ملک میں رہے یا بیرون ملک ان کے دل و دماغ اور زبان پر بلوچ قوم کے حقوق اور ساحل وسائل کی بات رہی وہ اپنے قول و فعل پر ہمیشہ قائم رہے اور انہوں نے اپنے لئے جو راہ چنی عمر بھر اس پر چلتے رہے بلاشبہ وہ ایک عظیم رہنما تھے وہ جوانی سے ہی جوشیلے اور جذباتی انسان تھے ان کی تقاریر ان کے بیانات اور ان کے انٹرویوز بطور ثبوت ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے جب بھی کوئی بات کی کھل کر جب بھی کوئی اقدام اٹھایا تو ڈھنکے کی چوٹ پر اٹھایا اور جب بھی کوئی فیصلہ کیا چٹان کی طرح اس پر قائم رہے وہ جب بھی بات کرتے قوم کی بات کرتے وہ جب بھی سوچتے قوم کی مفاد کا سوچتے۔
محترم قارئین سردار صاحب کو صرف 9 ماہ اقتدار نصیب ہوا اور ان کے اپنے ہی یاروں نے انہیں اس نو ماہ بھی سکون سے کام نہیں کرنے دیا۔یار لوگ اس عرصہ میں مسلسل ان کی ٹانگ کھینچتے رہے پریشان کرتے رہے۔ لیکن اس باکمال آدمی نے 9 ماہ میں وہ کام (انہیں انقلابی کام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا)کیے کہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی حیران و پریشان رہ گئی ان کے دور میں تعلیم و ترقی کے لئے جو اقدامات ہوئے بلوچستان کے لوگ آج اسی کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں ان کے دور میں پہلی عظیم درسگاہ بلوچستان یونیورسٹی قائم ہوئی ان کے ہی دور میں بولان میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی بلوچستان کے لوگ دوسرے صوبوں میں حصول تعلیم کے لیے جانے کی کوفت خواری، بجاری اور قرض داری سے بچ گئے ان کے دور میں ہزاروں مقامی افراد کو نوکریاں ملیں ۔جس کی بدولت آج کی نسل آباد وشاد ہے صوبے کے کم یا زیادہ سب پڑھے لکھے لوگوں کو اعلی عہدے نصیب ہوئے اور ہرطرف خوشحالی آئی۔ سردار مینگل اس وقت اسٹینڈ نہ لیتے اور غیر مقامی افراد یہاں اسی طرح مقیم رہتے تو وہ خود بھی نوکریوں اور وسائل پر قابض رہتے اور اپنے بعد اپنے اپنی اولادوں اور رشتہ داروں کو اولیت دیتے یقین کریں ہر طرح کے تمام وسائل پر قابض لوگ بلوچ صاحب کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھتے آج جو لوگ پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہے یا ریٹائر ہو چکے ہیں ان کا اوڑھنا بچھونا کھانا پینا گاڑی بڑاپیٹ بنگلہ دیگر اشیاء صرف اور صرف سردار عطاء اللہ خان مینگل کی مرہون منت ہے لہٰذا انہیں اور ان کی نسلوں کو عمر بھر کا احسان مند ہونا چاہیے سردار صاحب اس وقت اجتماعی سوچ و فکر نہ رکھتے تو آج بلوچ قوم کے حالات 1970 سے بھی بدتر ہوتے ان کے دور میں بلوچستان میں پہلی بار فیکٹریاں لگیں جس کے نتیجے میں محنت کش لوگوں کو باعزت اور اچھا روزگار مہیا ہوا لیکن بعد میں جس کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے۔
سردار صاحب کے دور میں ان کے وزیروں کو آج کی طرف فنڈز کار موٹر جہاز کی سہولت میسر تھی نہ وہ بلیک میلر تھے بلکہ وہ تمام اپنی قوم اور سرزمین سے مخلص تھے سردار صاحب اپنے وزیروں اور مشیروں کی موجودگی میں بلوچستان سیکرٹریٹ کے لان میں بیٹھ کر عوام سے بات کرتے کھلی کچہری لگاتے، ان کے مسائل سنتے اور فوری طور پر اقدامات اٹھایا کرتے تھے اس دور میں نہ نوکریاں بکتی تھی نہ ٹھیکے، آج تو انسان برائے فروخت ہے ان کا آرڈر تھا کہ دفتری اوقات میں صرف دفتری معاملات نمٹائے جائیں اور دفتر کو بیٹھک نہ بنایا جائے۔
والد صاحب اکثر قصہ کرتے تھے کہ اس دور میں جب مکران سمیت پورے بلوچستان میں پی ٹی سی ایل فون تک کی سہولت خال خال تھی اور اس وقت بھی ؎سردار مینگل کے حکم سے لوگوں پر لرزا طاری رہتا تھا وہ بتایا کرتے تھے میں تربت میں کسی دفتر میں گیا تو بلوچ آفیسر نے انتہائی معذرت کے ساتھ کہا کہ شاکر صاحب ناراض نہ ہونامیں نے بلوچ ہوتے ہوئے بھی آپ کو چائے کی صلاح نہیں کی کیونکہ ہمارے وزیر اعلی کا سختی سے آرڈر ہے دفتری اوقات میں چائے بسکٹ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے صرف سرکاری کام کیا جائے والد صاحب کہتے ہیں مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں نہ فون ہے نہ کوئی اور سہولت لیکن اس کے باوجود حاکم کے حکم کی تعمیل کی جا رہی ہے یہی بات انہوں نے مکران سے واپسی پر سردار عطااللہ جان مینگل کو بھی بتایا کہ وہاں ہزار وں کلومیٹر دور بیٹھے لوگ آپ کے ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی قوم سے مخلصی کی وجہ سے آپ کی ہر بات پر آمین کہہ رہے تھے۔ آج کے وزیراعلی نہ خود مخلص ہے اور نہ ان کے افسران تازہ صورتحال یہ ہے کہ دفتروں میں دفتری کام کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے جبکہ ایک سردار مینگل تھے جو چمن بارڈر تک خود بھیس بدل کر جاتے اور راشی افسران کو موقع سے پکڑ کر کوئٹہ لاتے تھے اپنی سرزمین سے مخلصی کا یہ جذبہ ہم نے کسی اور میں نہیں دیکھا سردار صاحب قبائلی چیف ہونے کے باوجود عام آدمی کی طرح کوئٹہ کے جناح روڈ پر بیٹھتے اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے شاید وہ دور اور وقت اچھا تھا قبائل کی آپس میں خلشیں ضرور تھی لیکن ہر کوئی اپنے دشمنوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا دشمنی کے اصول ہوا کرتے تھے وہ لڑتے مرتے تھے لیکن ایک ضابطے کے ساتھ اس وقت اس طرح کی خوشی و بے ہنگم جنگیں نہیں تھیں۔ جیسا کہ بعد کے عرصے میں ہوا ہمارا کلچر ہی تباہ و برباد کر دیا گیا اور ایسا ماحول پیدا کردیا گیا کہ بھائی بھائی سے ڈرنے لگا جبکہ اس سے پہلے بھائی ہی اپنے بھائیوں کی طاقت تصور ہوتے تھے ایک دوسرے کے بانہہ بیلی سمجھے جاتے تھے۔
محترم قارئین! سردار مینگل ایک شخص نہیں بلکہ جہد مسلسل کا نام ہے وہ جب جلاوطنی ختم کرکے اپنی سرزمین پر آئے تو ان کے دیوانوں نے انہیں دل و جان سے خوش آمدید کہا اور ہر طرف جی ترا جی ترا سردار مینگل کے نعرے بلند ہوئی انہیں وہ عزت ملی جو ان کا حق تھا۔ بلوچ عوام نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا ان کی قیادت و سربراہی میں بننے والی جماعت کو ان کے شیدائیوں نے اتنے ووٹ دیئے کہ وہ بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور ان کے صاحبزادے بلوچستان کے وزیر اعلی بنے لیکن ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو سردار مینگل کے ساتھ ہوا تھا یعنی تاریخ ایک بار پھر دہرائی گئی اس بار ان کے بیٹے کے پیاروں اور ان کے یاروں نے کسی اور کا آلہ کار بن کر ان کی حکومت کو نقصان دیا۔
محترم قارئین! سردار صاحب کی طرح ان کی صاحبزادے سردار اختر مینگل بھی انتہائی شستہ، قابل، ایماندار، زبان کے پکے، اور کردار کے سچے ہونے کی وجہ سے عوام کے دلوں میں بہت جلد گھر کر گئے۔ انہوں نے اپنے والد کی سنت پر عمل پیرا ہوکر تھوڑے عرصے کی حکومت میں بھی بلوچستانی عوام کو بہت سی سہولتیں دینے کی بھر پور کوششیں کیں۔ انہوں نے لوگوں کو ہزاروں نوکریاں دی، ترقیاں دیں، تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ کی، اور ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ یہ حرکات بھلا کسی کو کیسے پسند آتے اس لیے ان کا بوریا بستر گول کردیا گیا ان کے دور کو آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
محترم قارئین! سردار صاحب انتہائی مضبوط اعصاب اور مضبوط دل اور دماغ کی انسان تھے ان کے بڑے صاحبزادے اسد اللہ مینگل ستر کی دہائی میں ایسے لاپتہ ہوئے کہ ان کا آج تک کوئی پتہ نہیں لیکن آفرین ہے اس عظیم انسان نے کبھی اپنے بیٹے کا دکھ منایا نہ کبھی دعائیں دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لیے لاکھوں اسداللہ قربان ہوئے ان میں ایک میراسداللہ بھی تھا میں اسے بیٹے کا غم کیوں اور کیسے مناؤں وطن پر قربان ہونے والے سب میرے بیٹے تھے۔
محترم قارئین! پونم کے نام سے محکوم قوموں کا اتحاد بنا تو پونم میں شامل تمام جماعتوں کے لیڈروں نے سردار عطااللہ مینگل کو ان کی جرأت مندی کی وجہ سے پونم کا سربراہ چنا۔ سردار صاحب نے پونم کو بہت اچھی طرح سنبھالا اور پونم کے پلیٹ فارم سے بھی حق کی آواز بلند کی اور سر بلند ہوئے۔ سردار مینگل با اخلاق، با کردار انسان تھے ان سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ خندہ پیشانی سے پیش آتے ہمیشہ محبتیں بانٹتے نصیحتیں کرتے اور گھنٹوں گفتگو فرماتے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم قائد بہترین انسان اور شفیق بزرگ تھے آج سردار صاحب جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی یادیں ان کی باتیں ان کی خصوصیت اور قول و قرار ہمارے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
ہم عظیم رہنما سردار عطااللہ خان مینگل کے انتقال پر انتہائی رنجیدہ دل گرفتہ ہے اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے آمین اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اس میں کوئی شک نہیں کہ سردار مینگل کی جدوجہد شخصیت اور قربانیوں پر ہزاروں کتابیں لکھی جاسکتی ہے اور لکھی بھی جائیں گی لیکن ہم ان سے اپنی لازوال محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ان کی قربانیوں اور جدوجہد پر خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور موجودہ شمارہ ان کی نظر کر رہے ہیں لیکن بہرحال حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔