سردار عطاء اللہ خان مینگل
تحریر:ریاض سہیل
”میں بھیڑوں کے آگے بین نہیں بجانا چاہتا۔“ سردار عطاء اللہ مینگل کا یہ بغیر رکھ رکھاؤ کے سیدھا جواب تھا جب میں نے اُن سے چند سال قبل انٹرویو دینے کی درخواست کی تھی۔ اس جواب کے بعد ہم ان کے گھر جا پہنچے اور انٹرویو نہ دینے کی وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے کہا کہ اب اندھوں، گونگوں اور بہروں کے سامنے کیوں چلائیں، کیونکہ کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سردار عطاء اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ اور بلوچستان کی قوم پرست سیاست کے چوتھے ستون تھے جو اپنی تلخ اور اصول پرست سیاست کی وجہ سے ذاتی المیوں اور صدموں سے بھی گزرے۔
والد کی ریاست سے بے دخلی:۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی پیدائش خضدارکے علاقے وڈھ میں سردار رسول بخش مینگل کے گھر میں ہوئی۔ ان کا تعلق شاہزئی مینگل قبیلے سے تھا۔ والد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم ان کا جھکاؤ قلات ریاست کے بجائے جام آف لسبیلہ کی طرف تھا۔ چیف آن جھالاوان اور قلات ریاست سے اختلاف کی وجہ سے انہیں خضدار سے بے دخل کیا گیا اور انہوں نے بیلہ میں رہائش اختیار کی۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے ابتدائی تعلیم مقامی طور پر جبکہ مزید تعلیم اسلامیہ کالج کراچی سے وصول کی۔ وہ چھوٹی عمر میں اپنے شاہزئی مینگل قبیلے کے سردار بنے تھے۔ روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی بتاتے ہیں کہ میر غوث بخش بزنجو نے انہیں ایک انٹرو یو میں بتایا تھا کہ انہوں نے خان آف قلات کو سفارش کی تھی کہ یہ ایک بڑا قبیلہ ہے، اس کی سرداری بحال کی جائے جس کے بعد عطاء اللہ مینگل کو سردار بنایا گیا تھا۔ شاہزئی مینگل سرداروں کے قلات ریاست اور نواب آف جھالاوان سے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔
اختر علی خان بلوچ ’بلوچستان کی نامور شخصیات‘ میں خان آف قلات امیر احمد یار خان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے انہیں بتایا تھا کہ آج بھی وہ منظر نہیں بھولا جب کمسن عطاء اللہ کے سر پر سرداری کی پگڑی باندھی تھی میں نے مینگلوں کو ا سکی سرداری پر کتنے جہتوں کے بعد راضی کیا تھا۔
راقم کو میر آغا خاجی خان نے بتایا کہ کراچی کے سیکنڈری سکول سے کمسن عطاء اللہ مینگل کو اٹھاکر قلات میں لایا گیا اور سردارِ قبیلہ کے طور پر ان کی دستار بندی کی گئی۔
یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں وڈھ پہنچنے پر ان کو سرداری کا ایک بڑا امیدوار قتل نہ کروادے، چنانچہ خان آف قلات نے انہیں (جو اُن کے ہم زلف اورکزن تھے)۔ نوجوان عطاء اللہ مینگل کے ہمراہ محافظوں کی نفری کے ساتھ وڈھ بھیجا کہ وہ وہاں جاکر مینگل قبیلے کے تمام معتبرین کو خان کے فیصلے اقدام سے آگاہ کردیں اور سردار عطاء اللہ کی حفاظت کریں۔
جیپ کا سفر اور سیاست:۔ سردار عطاء اللہ مینگل کا سیاست میں آنے کا فیصلہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ایک ملاقات میں جب ان سے پوچھا تھا کہ آپ سیاست میں کیسے آئے تو اُنہوں نے اپنی جوانی کا واقعہ سنایا۔
پچاس کی دہائی تھی میں ابھی صرف سرداری کرتا تھا اور سیاست میں قدم نہیں رکھا تھا ہمارے گاؤں سے مین روڈ تک سڑک نہیں تھی سو میں نے ذاتی خرچے سے یہ سڑک تعمیر کروائی۔ اور اس کا افتتاح ریاست قلات کے وزیراعظم سے کروانے کا فیصلہ ہوا مقررہ دن وہ آئے اور ہم انہیں روانہ ہوئے راستے سے کی ندیاں گزرتی ہے اگر کوئی تھوڑا بھی جائے تو آگے جاکر پھنس جاتا میں وفد کے ساتھ آگے جا رہا تھا لیکن سوچ کر گاڑی واپس موڑ ڈی کے مہمان بھٹک نہ جائے آئے۔
سردار عطاء اللہ کے بقول وہ واپس آئے تو دیکھا کہ مہمان راستہ بھٹک چکے تھے انہوں نے انہیں کراس کیا اور پیچھے آنے کو کہا یہ گاؤں پہنچے گاؤں میں کھانے کا بھی انتظام تھا اس وقت میرے پاس آیا اور وزیراعظم کے اسسٹنٹ کو کھانے کے لیے کہیں میں نے کہا کہ سب لوگ کھانا کھا رہے ہیں میں نے تو کسی کو نہیں کہا تم نے بتایا کہ اسسٹنٹ کہاں ہے اس بندے سے یہ میری پہلی ملاقات تھی میں نے پوچھا کہ وہ خفا کیوں ہے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ آپ نے اس کی گاڑی کو کراس کیا ہے ڈپٹی کمشنر کی یہ بات سن کر مجھے حیدرآباد دکن کے نظام کی بیٹی قصہ یاد آگیا وہ اپنی گاڑی میں جا رہی تھی تو ایک انگریز خاتون جس نے کسی مقامی شخص سے شادی کی تھی کی گاڑی نہیں اس کو کراس کیا نظام کی بیٹی نے حکم دیا کہ اس خاتون کی گاڑی ریورس میں اس کے گھر تک پہنچائی جائے اور گاڑی کو اسی طرح واپس پہنچایا گیا میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کیا یہ زمین میری نہیں ہے اس کے بعد میں نے سیاست کا آغاز کیا اور نوے کی دہائی تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
پارلیمانی سیاست کا آغاز:۔ بلوچستان کے ترقی پسند قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہی سردار عطااللہ مینگل کو سیاست میں آنے پر قائل کیا تھا اور ان کے مشورے پر ہیں انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا وہ 1956 میں مغربی پاکستان کی اسمبلی میں کامیاب ہوئے دو سال بعد صدر سکندر مرزا نے آئین کو معطل کر کے مارشل لاء کا نفاذ کر دیا اور یوں جنرل ایوب کے در پر قابض ہو گئے سردار عطاء اللہ نے اس مارشل لاء کی مخالفت کی اور انہیں جیل جانا پڑا۔
میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیر بخش مری کے ساتھ انھوں نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو سرگرم کیا سن باسٹھ کے انتخابات میں وہ قلات ڈویژن سے منتخب ہوئے جب ون یونٹ کا نفاذ کیا گیا تو انہوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی ان دونوں رہنماؤں کی جوشیلی اور قوم پرستانہ تقاریر میں نہ صرف بلوچستان بلکہ کراچی کے نوجوانوں میں بھی جوش و خروش پیدا کیا
کراچی کے قریب گراؤنڈ میں ان کا جلسہ صبح چار بجے تک جاری رہا اگلے روز انہیں ریاست سے غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا رمضان بلوچ کتاب روشن چہرے میں لکھتے ہیں کہ امام عطاء اللہ مینگل کی تقریر آج تک ان کے کانوں میں گونج رہی ہے وہ لیاری کے بلوچوں کے آئیڈیل بن گئے اور بہت مشکل سے کوئی گھر ہوگا جس میں ان کی تصویر نہ لگی ہو۔
قتل کے الزام میں گرفتاری:۔ریاست سے غداری کے الزام میں گرفتاری کے چند ہفتوں کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا سرکار کی مدد سے ایک بزرگ کرم خان مینگل کو شاہزئی مینگل قبیلے کا سردار مقرر کر دیا گیا لیکن لوگوں نے حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا جس کے بعد سردارعطاء اللہ ان کے والد رسول بخش مینگل اور گرفتار کرلیا گیا پولیس ثابت نہ کرسکی اور نتیجے میں انہیں رہا کرنا پڑا اور ان کی سرداری بھی برقرار رہی۔
بلوچستان کے پہلے وزیر اعلی:۔ نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے انیس سو ستر کے انتخابات میں حصہ لیا اورپاکستان کے پہلے وزیر اعلی بنے۔ ان انتخابات سے قبل بلوچستان کو صوبے کی حیثیت حاصل نہیں تھی سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نیپ کو حکومت بنانے ہی نہیں دیتے مگر مجبوری میں انہوں نے ایسا کیا کیونکہ اس وقت فوج ان کے ساتھ نہیں تھی۔
اس دور میں انہوں نے تعلیم پر توجہ دیں بلوچستان کا تعلیمی بورڈ بولان میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج قائم کیے اس عرصہ میں نواب خیر بخش مری نے سرداری نظام کے خاتمے کی قرارداد پیش کی جس میں انہوں نے حمایت کی لیکن فیصلہ وفاقی حکومت کے اختیار میں تھا لہذا یہ وفاقی حکومت کو بھیجی گئی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو منانے عمل نہیں کیا چنانچہ بھٹو حکومت سے سیاسی اور انتظامی معاملات پر اختلافات پیدا ہو گئے۔
عطااللہ مینگل تصویر کا ذریعہ:۔ اقرا یونیورسٹی اسلام آباد میں پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رضوان زیب اخبار فرائیڈے ٹائمز نے اپنے آرٹیکل میں روڈ صاف منٹ میں لکھتے ہیں کہ عطا اللہ مینگل کی حکومت اور وفاق میں تنازع شروع ہوگیا۔
منگل نے 55 سو غیر مقامی ملازمین کو ملک سے بے دخل کرکے واپس بھیج دیا جن میں ڈھائی ہزار سے زائد پولیس کے تھے اس کے علاوہ برس نہیں محفوظ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
مینگل نے پوسٹ گارڈز کو مکران کے ساحل پر گشت کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اس کے علاوہ مری اور مینگل قبائل نے پٹ فیڈر ایریا میں آبادکاروں پر حملہ کئے
رضوان زید کے مطابق انہی دنوں یعنی انیس سو بہتر میں پاکستان کے کئی سیاستدان جن میں سے زیادہ تر کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا لندن میں تھے اتفاقی طور پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمٰن بھی موجود تھے۔
پاکستانی میڈیا بالخصوص حکومتی اشاعتی ادارے نیشنل پیپر فرسٹ کے اخبارات میں یہ چھپوائی گئی کہ یہ لوگ بھٹو کو الٹا کر پاکستان کی تقسیم چاہتے ہیں اس کو لندن پلان کا نام دیا گیا۔
اسی سال دس فروری کو سکیورٹی فورسز نے اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعوی کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بلوچ مزاحمت کاروں کے لیے بھیجا گیا تھا ایک اور مسلح جدوجہد کا آغاز:۔ بلوچستان کی پہلی اسمبلی اور حکومت کو اس کے قیام کے دس ماہ میں برطرف کردیا گیا اور غوث بخش بزنجو عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری سمیت سندھ کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا اس کو حیدر آباد سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے رضا زیب کے مطابق حکومت کی برطرفی کے چھتوں کے بعد حکومتی فورسز کے قافلوں پر حملے شروع ہو گئے 18 مئی 1974 کو ایک اہم حملہ ہوا جب تندوری کے مقام پر دیر سکاوٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
عسکریت پسندوں کی خاص طور پر موجودگی ساروان جھالاوان اور مری بگٹی ریاست تھی جولائی 1974 تک عسکریت پسند کے سر قوم کا کنٹرول حاصل کر چکے تھے اور ملک کے دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا تھا ٹرین سروس بھی متاثر ہوئی۔ سردار عطااللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے اولین فرد تھے۔
بیٹے کی جبری گمشدگی:۔ سردار عطااللہ مینگل سیاسی سفر میں ذاتی صدمہ دیکھنے والے بہت پہلے سیاستدان تھی وہ جب کراچی میں اسیر تھے تو ان کے بیٹے اسد اللہ مینگل کی گمشدگی کا واقعہ پیش آیا ذوالفقارعلی بھٹو اور حکومت حقیقت میں لکھتے ہیں انہیں سندھ کے وزیراعلی غلام مصطفی جتوئی نے بتایا کہ شہر میں کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہے۔غلام مصطفی جتوئی کے مطابق ایک عینی شاہد نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ اسد مینگل اپنے دوست احمد شاہ کو درد کے ساتھ وقوع کی رات بلخ شیر مزاری کے گھر آئے تھے۔
بلخ شیر مزاری گھر میں نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے گھر کا دروازہ کھولا اور اسد اللہ اور ان کے دوست اندر گئے اور بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد دونوں باہر نکلے اور اپنی کار میں سوار ہوگئے۔ جوں ہی گھر کا دروازہ بند ہوا تو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ برسوں گزر گئے، اسد مینگل کی نہ لاش ملی اور نہ ہی کہیں سے زندہ ہونے کا کوئی سراغ مل سکا۔ ان کا شمار بلوچستان سے جبری گمشدہ پہلے کارکنان میں ہوتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کا دور اور رہائی:۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ انہوں نے بلوچ رہنماؤں کی طرف نرم رویہ رکھا، شہزادہ ذوالفقار کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے بلوچوں سے میٹنگ کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان سے ظلم زیادتی ہوئی ہے جس کے بعد گرفتار لوگ رہا ہوئے اور سیاسی درجہ حرارت معمول پر آگیا۔ میر غوث بخش بزنجو نے کہا کہ بلوچ وفاق میں ہی رہیں تو بہتر ہے۔ مینگل اور مری خاموش رہے۔ عطاء اللہ مینگل لندن اور خیر بخش مری افغانستان چلے گئے اور اپنے لوگوں کو افغانستان بلا لیا۔ لندن میں عطاء اللہ مینگل نے سندھی اور بلوچ قوم پرستوں پر مشتمل ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن قائم کی۔ بزنجو پاکستان میں رہے اور بی این پی کا قیام عمل میں لائے۔ سردار عطاء اللہ مینگل 1996ء میں وطن واپس آگئے۔ انہوں نے بی این پی کی تشکیل کی۔ سنہ 1997ء کے انتخابات میں اکثریتی پارٹی بنی ان کے بیٹے اختر مینگل وزیر اعلیٰ بنے اور وہ خود عملی سیاست سے ریٹائر ہوگئے۔
نواب خیر بخش مری کے قریب:۔ سردار عطاء اللہ مینگل کو سیاست میں لانے والے میر غوث بخش بزنجو تھے لیکن وہ نواب خیر بخش مری کے قریب رہے اور دونوں ایک دوسرے کے فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوتے تھے۔ بعد میں اس دوستی نے رشتے داری کی بھی شکل اختیار کی۔ ان کے بیٹے جاوید مینگل نواب خیر بخش مری کے داماد بنے۔
انتخاب اخبار کے ایڈیٹر انور ساجدی کا کہنا ہے کہ سردار عطاء اللہ نے سیاست میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستان کے انتظامی ڈحانچے میں پارلیمانی جمہوریت سیاست میں یقین رکھتے جبکہ سردار عطاء اللہ اقتدار میں آنے کے بعد آزادی کی بات کرتے جبکہ خیر بخش مری یہ بات کافی عرصے سے کررہے تھے تو پھر نظریاتی طور پر اُن کے قریب ہوگئے۔
ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پہلے صدر ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر انہوں نے 1970ء کے انتخابات میں ریاست قلات کے شہزادے کو شکست دی۔ ان کا کہنا ہے کہ سردار عطاء اللہ جب سیاست میں آئے تو قبائلی سردار ہونے کے باوجود انہوں نے نیم قبائلی اور نیم سرداری جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھر پور جدوجہد کی اور ایک مثبت سوچ وطن دوست اور قوم پرست کے حوالے سے بھر پور کردار ادا کیا۔ یہ بڑی بات ہے کہ ایک بڑے طبقے یا مراعات یا فتہ طبقے میں ہونے کے باوجود انہوں نے اسی طبقے کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ اس حکومت کے قیام سے بلوچ عوام میں یہ احساس پیدا ہوا کہ یہ ہماری حکومت ہے یہ سب سے بڑا کام ہوا، انہوں نے یہ یقین اور حوصلہ دیا کہ ہم آپ کے لوگ ہیں، آپ کی وجہ سے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان بھر کے قوم پرست جماعتوں نے پونم نامی قومی اتحاد تشکیل دیا تو سردار عطاء اللہ کچھ عرصے دوبارہ سیاست میں آئے اور اس اتحاد کے سربراہ بھی بنے۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت اور بعد میں بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور اختر مینگل کی گرفتاری سے ان کے مزاج میں تلخی آتی گئی اور ان کا مؤقف میڈیا سے لاپتہ ہوتا گیا اور زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے میڈیا سے قطع تعلق کر دیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم پاکستان سے ناراض نہیں بیزار ہیں۔