راہشون سردارعطاء اللہ خان مینگل جن کے پہلی برسی پرہرآنکھ اشکبار ہے

تحریر: ندیم گرگناڑی
بلوچ قوم ہزاروں سال پرمحیط تاریخ رقم کرتی آرہی ہے۔ اس تاریخ نے کہیں بہادرسپوت پیدا کئے۔ کہیں شہیدوں کو جنم دیاہے تو کہیں وطن کے غازی مہرومحبت سے لبریز وطن کی مٹی سے پیارکرنے والے سینکڑوں فرزندان وطن پیدا ہوکر پھر اسی مٹی کو بانہوں میں لیکرآسودخاک ہوتے آرہے ہیں۔بلوچ وطن کی مٹی نے شہداء غازیوں اور بہادرسپوتوں کو مٹی ء خمیرسے بناکر بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں چٹیل میدانوں آنکھوں سیلبریز آنسو تلاروں سے بہہ کر ایک المناک تاریخ کی نوید لیکر مادروطن کی آبیاری کے لئے بانہیں پہیلائے وطن کے رکھولوں کوپکار رہے ہیں۔بلوچ وطن کے لئے لاکھوں فرزندوں نے جہاں اپنی جانیں قربان کرتے آرہے ہیں وہیں پر ہزاروں فرزندان نے سیاسی عمل میں شریک ہوکرمزاحمتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ جمہوری وسیاسی جدوجہد کے زریعے بلوچ وطن کی مٹی سے اپنی محبت کوپروان چڑھائیہیں۔ میرمحراب خان شہید ہو۔ نواب نوروزخان زرکزئی۔ نواب خان محمد زرکزئی ہو۔ میرلونگ خان شہید۔ سردارنوردین مینگل ہو۔سردار شہباز خان گرگناڑی۔ سرداررسول بخش ساسولی ہو۔ نورمحمد مینگل عرف نورا مینگل۔ غازی سلیمان گرگناڑی ہو۔میر علی محمد مینگل۔ یا لاکھوں گمنام شہداء غازی جن کے مزاحمتی جہد سے بلوچ سرزمین کی چپہ چپہ آج بھی لہو سے سرخ ہے۔اس سرزمین کوآج تک خون سینہلاکر کفن میں لپیٹا جارہا ہے۔جنہوں نے بلوچ سرزمین کے لئے آواز بلند کی وہ غدار ٹہرے۔ جنہوں نے سجدے کئے وہ وفادارٹہرے۔ بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو جس نے ساری زندگی مظلوم ومحکوم اقوام کی آخری دم تک سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔ اسی پاداش میں نصف زندگی جیل زندانوں اور کھلی کیمپوں میں رہے۔ کبھی بھی اسے اپنے علاقے یاگاؤں میں ٹکنے نہیں دیاگیا۔ سردارخیربخش مری جوفلاسفی منطقی اورمزاحمتی سیاست کے علمبردارتھے۔ بلوچستان کو قومی وبین الاقوامی سطح پر اجاگر کرکے امرہوگئے۔ جس کے نظریہ پرکاربندرہتے ہوئے ان کے ہزاروں پیروکار آج اس ملک کے لئے سوحان روح بنے ہوئے ہیں۔ نواب اکبرخان بگٹی جوزندگی بھراس ملک کے خیرخواہوں میں شمارہوتے تھے۔ جسیپیرانہ سالی کے عمر میں نامعلوم کفن پہناکر تالابند تابوت میں دفنا دیاگیا۔ جس کے خون کی چھینٹوں سے اس ملک میں جوآگ لگی ہے وہ بجھنے کانام نہیں لے رہاہے۔ سردار عطائاللہ خان مینگل جس کی آج دوستمبرکو پہیلی برسی ہے ہرآنکھ اشک بارہر دل خون کی آنسو رورہاہے۔ جواپنی گرجدارآواز اورعام فہم باتوں کے زریعے لوگوں کی خون کوگرما دینے کا ماہراوروقت وحالات کی نزاکت کے مطابق لوگوں کی نبض پرہاتھ رکھکر اظہار خیال کرکے زندگی بھر اپنے نظریہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ بلکہ تمام زندگی بلوچ وطن بلوچ قوم کی بھرپورنمائندگی کا حق ادا کیا۔ سردارعطائاللہ خان مینگل بلوچستان کے چوتھے ستون تھے۔ زندگی بھر بلوچ سائل وسائل وقومی حقوق کے لئے بھرپور جدجہد کی۔،1970ء کی الیکشن میں کامیاب ہوکر بلوچستان کے پہلے بااختیاروزیراعلی بن کر بلوچستان میں تعلیمی اداروں کا جال بھچایا۔ سردارعطائللہ خان مینگل سیاسی سفرمیں بلوچستان کا واحد لیڈرتھا جو ذاتی صدمیسے دوچارکردیئے گئے۔ کراچی میں جیل کے دوران ان کے بیٹے اسد مینگل کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا۔ اسد مینگل بلوچستان کا پہلالاپتہ شخص ہے جسکا ابھی تک نہ لاش ملا نہ ہی اسکے قبرکا اتاپتہ ہے۔ 1996ء میں بلوچ قومی جماعت بی این پی کو وجود میں لایاگیا۔ نواب اکبرخان بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی بی این پی اور جمیعت علمائے اسلام کے اتحاد سے سردارعطائاللہ خان مینگل کے فرزند سرداراخترجان مینگل کو وزیراعلی بنایاگیا۔ لیکن بدقسمتی کہ سردارعطائاللہ خان مینگل کی صوبائی حکومت کی طرح ان کے فرزندسرداراخترجان مینگل کی صوبائی حکومت کو بھی چلنے نہیں دیاگیا۔ بلوچستان کی موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے سردارعطائاللہ خان مینگل نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ابنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگرمرناہے تومرومارو۔ بصورت اپنے ماؤں بہنوں کومت رلاؤ۔ بلوچستان کی موجودہ حالات کومدنظررکھتے ہوئے وہ کبھی بھی مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ بلوچ قوم کی بے اتفاقی ایک دوسرے کی دشمنی اور صادق و جعفر جیسے بلوچوں کی حالت دیکھ کر انتہائی رنجیدہ رہتے تھے۔ بلکہ نواب اکبرخان بگٹی کے شہادت اورسرداراخترجان مینگل کے گرفتاری کے بعد اس کی زبان تلخ ہوگیا تھا۔ آخری دنوں میں میڈیا سے قطع تعلق ہوکر بلکل خاموشی اختیار کر رکھاتھا۔ سردارعطائاللہ خان مینگل اپنے دوٹوک مؤقف کی وجہ سے انتہائی معروف تھے ہر حکمران کے سامنے اپنا مؤقف بلاخوف وخطررکھتے تھے۔ بلکہ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرونک میڈیا کے سامنے جب بھی بات کرتے تو پہلے کہتے کہ جو میں کہتا ہوں۔ وہ من وعن چھپ جائے۔ نہیں تو نہ اپنے کو تکلیف دیں نا مجھے پھریشان کردیں۔ انہوں نے ایک دفعہ انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جدوجہد کرکے تاریخ میں نام پیدا کیاجائے۔ آنے والامؤرخ بڑا بے رحم ہوگا? وہ آپ سے پوچھ کرتاریخ نہیں لکھے گا۔ بلکہ آپ کے اچھے اور برے کردار کو مدنظررکھکرتاریخ رقم کیاجائیگا۔ سردار عطائاللہ خان مینگل اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے منہ پر توا ملکر انہیں اپنا وفادار بنانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ بلکہ یہاں پراکثر سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی کاندھوں پر ہاتھ رکھکرحکمرانی کرتے آرہے ہیں۔ یہاں پرایک ذوالفقارعلی بھٹو نے۔ یہاں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ گو کہ میں بھٹوکے حق میں بات نہیں کرتا۔ اس نے ہم سے کونسا اچھائی کی تھی۔ گھمنڈمیں آکر اقتدارمیں آئے۔ اسے پھانسی پرایسا لٹکایاکہ اس طرح کوئی چوہے کو بھی نہیں لٹکاتا۔تیسری دفعہ جب میاں نواز شریف اس ملک کے حکمران بن گیا تو کراچی میں سردار عطاء اللہ خان مینگل سیملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ جہاں پرمیڈیا کے سامنے سردار عطاء اللہ خان نے بلاجھجک کہاکہ میاں صاحب آپ لوگ آنے میں بہت دیرکردی ہے اب بلوچستان کا مسئلہ نہ میرے ہاتھ میں ہے نہ میں اس مسئلے کوحل کرسکتا ہوں اب یہ مسئلہ بلوچستان کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں چلاگیا ہے۔ اس مسئلے کو نہ آپ حل کرسکتے ہیں نہ میرے بس کی بات ہے۔سردارعطائاللہ خان مینگل مرحوم نے حقیقتاً جوکہاتھا وہ سچائی کے غماز ہیں۔ بلوچستان کے چاروں ستون لیڈراں جب تک زندہ تھیں۔ بلوچستان کے مسائل بین الاقوامی سطح پر اجاگر رہے۔ آج سردارعطاء اللہ خان مینگل جسمانی طورپر ہم میں نہیں ہے لیکن ان کے نظریہ جہد مسلسل اور افکار بلوچ عوام کے لئے مشعل راہ ہیں۔ کبھی کبھی خواہشات بھی ادھورے رہتے ہیں پروفیسرمنظوربلوچ نے اپنے ایک کالم میں لکھاتھا کہ میں کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ سردارعطائاللہ خان مینگل کی سوانح عمری حالات زندگی لکھوں مگرمجھے اس میں کامیابی نہ مل سکا۔ یہی خواہش میرا بھی تھا کہ کچھ سال پہلے جونہی سردار اخترجان مینگل باہر سے تشریف لائینگے تو سردار عطائاللہ خان مینگل سے ملنے کیلئے ان سے مشاورت کیاجائیگا۔ مگریہ خواہش پورا نہ ہوسکا۔ بسا اوقات ہم بھی خواہشات کو بہت دیرتک سینے میں چھپاتے ہیں اوروہ بندہ جو معلومات کا زخیرہ ہیوہ ان یادوں کو سینے میں چھپائے چلاجاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے