ترقی یافتہ و خوشحال بلوچستان کیلئے وفاق اور بلوچستان کو ایک پیج پر اکٹھے ہونا پڑے گا،میراسد بلوچ

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)صوبائی وزیر زراعت و امداد باہمی میراسد اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ و خوشحال بلوچستان کیلئے وفاق اور بلوچستان کو ایک پیج پر اکٹھے ہونا پڑے گا،بلوچستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں وزیراعظم کی طرف سے اعلان کردہ10ارب روپے کے اعلان کو بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) مسترد کرتی ہے وفاقی حکومت فوری طور پر زمینداروں کے زرعی قرضے،بجلی اور گیس کے بل معاف اور 10ہزار ٹریکٹر سبسڈی قیمت پر دیئے جائیں،بلوچستان حکومت سیلاب سے متاثرین کی امداد کیلئے اسلام آباد میں ڈونر کانفرنس کا انعقاد کرے اورصوبے کے مخیر حضرات کو بھی اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔یہ بات انہوں نے محکمہ زراعت بلوچستان کی جانب سے کسانوں میں 50فیصد رعایتی قیمت پر کسانوں میں گرین ٹریکٹر کی چابیاں تقسیم کرنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پرسیکرٹری زراعت امید علی کھوکھر، ڈائریکٹر جنرل محکمہ زرعی انجینئرنگ بلوچستان سید بشیراحمد آغا،ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچرل بلوچستان عبدالوہاب کاکڑ اورزمیندارایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹر عبدالرحمن بازئی اوردیگر بھی موجود تھے۔صوبائی وزیر زراعت میراسد اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبہ کبھی خشک سالی تو کبھی بارشوں اورسیلاب سے متاثر ہوا ہے بلوچستان میں جون سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں اورسیلابی ریلوں سے زراعت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں بلوچستان میں 70سے 80فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے زراعت تباہ ہونے سے لاکھوں کی تعدادمیں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں کے بعد وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے نصیرآباد کادورہ کیا اور بلوچستان کیلئے 10ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے جسے بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) مسترد کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو خادم پنجاب سے نکل کر خادم پاکستان بننا ہوگا جس کیلئے انہیں بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ ہر ڈسٹرکٹ کا دورہ کرکے نقصانات کا جائزہ لینا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے جو امداد کا اعلان کیا ہے وہ بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم نہیں بلکہ نمک پاشی کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پشتون اور بلوچ بڑے بڑے مخیر حضرات موجود ہیں اگر وہ خود متاثرین کیلئے امداد جمع کریں تو وہ رقم 100ارب سے زائد ہوسکتی ہے بلوچستان حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ اسلام آباد میں ڈونر کانفرنس بلائے جس میں تمام ممالک کے سفیروں کو مدعو کیا جائے اور بلوچستان میں شکار کیلئے آنے والے عرب شہزادوں اوردیگر شکاریوں سے بھی امداد کی اپیل کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کے زمینداروں کے ذرعی قرضے،گیس،بجلی کے بل معاف کئے جائیں اور صوبے کیلئے 10ہزار ٹریکٹر رعایتی نرخوں پر زمینداروں کو فراہم اور200نئے بلڈوزر فراہم کئے جائیں جبکہ 6لاکھ بلڈوزر اوردور دراز علاقوں کیلئے20لاکھ ٹریکٹر گھنٹے دیئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ جب میں 2008ء میں زراعت کا وزیر بنا تواسوقت ڈویژنل سطح پرصرف ایک ڈپٹی ڈائریکٹر ہوتا تھا جس کے پاس تمام اختیارات تھے میں نے ہر ڈسٹرکٹ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی تعیناتی کو یقینی بنایا جس سے لوگوں اور ملازمین کو اپنے مسائل کے حل کیلئے ڈویژنل ہیڈکوارٹر نہیں جانا پڑتا۔انہوں نے کہا کہ محکمہ زرعی انجینئرنگ بلوچستان نے حالیہ سیلاب کے دوران بند روڈ کھولنے، ڈیموں،ریلوے ٹریک اور پلوں کی حفاظت کیلئے اپنے ڈوزر فراہم کئے جن کے لئے تیل کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کیلئے ہم نے صوبائی حکومت سے 40ملین روپے مانگے ہیں میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ ترقی یافتہ و خوشحال بلوچستان کے لئے وفاق اور بلوچستان کو ایک پیج پراکٹھے ہونا پڑے گا ہم ملک میں وقار اورعزت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں جن کی خوشی اور غم کو ہم اپنا سمجھتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ بلوچستان کے عوام کوسینے سے لگائیں اور انکی محرومیوں کے خاتمے کیلئے صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کریں۔انہوں نے کہا کہ 28مئی 1998ء کو وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے بھائی اسوقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے بلوچستان کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کئے صوبے کے پہاڑ بھی ملک کیلئے کام آئے اب آپ کو بھی یہاں کے عوام کی آواز سننا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں جب تک حقیقی لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا جائے گا بلوچستان ترقی و خوشحالی کا سفر طے نہیں کرسکتا ہمیں انتخابات کے موقع پر پیراشوٹ کے ذریعے آنے والوں کا ملکرراستہ روکنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے 75سال میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش نہیں کی اگر حکومت نے اس دوران پلاننگ اور منصوبہ بندی کی ہوتی تو اس ملک کے 23کروڑ عوام کو کشکول لیکر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس نہ جانا پڑتا ملک میں آفت کو وقتی طور پر محسوس کیا جاتا ہے اسکے بعد کوئی پلانننگ نہیں کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبے سے نفرت کی سیاست کے خاتمے اور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے یہاں آباد تمام اقوام کو ملکراپنا کردارادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم کے پنجاب کے لئے ہاتھ کھلے جبکہ بلوچستان کے لئے ایسا نہیں ہے انہیں اب یہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے